قدیم انسان


آج کے انسان کا کہنا ہے کہ وہ قدیم انسان کو دوبارہ سے پیدا کر سکتا ہے۔ پر وہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے۔ کیا اس کوموجودہ دور کے انسان کے ساتھ زندگی گزارنے دی جائے یا چڑیا گھر میں نمائش کے لئے پیش کیا جائے۔

کہا جاتا ہے کہ ماضی میں جا کر ماضی کی غلطیوں کو درست نہیں کیا جا سکتا مگر ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرتے ہوئے پچھلی غلطیاں نہیں دہرانی چاہییں۔ ان غلطیوں سے بچنے کے لئے سب سے پہلے تاریخ کا علم ہونا بہت ضروری ہے اور اس کے بعد جو چیز ضروری ہے وہ ہیں وہ لوگ جو اس وقت کا حصہ تھے۔ اور یہ بہت بڑی خوش قسمتی ہوتی ہے اگر ان بزرگان کا ساتھ مل جائے جو دہائیوں کا تجربہ رکھتے ہوں۔

مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک فارمولا ہم سب جانتے ہیں کہ سب سے بہتر وہ جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی یعنی کہ صحابہ کرام، ان کے بعد جن کو نبی کریم کے صحابہ کرام کی صحبت نصیب ہوئی یعنی تابعین، اور ان کے بعد وہ جن کو تابعین کی صحبت نصیب ہوئی یعنی تبع تابعین۔ اب صحابہ کرام کے حوالے کی جو حیثیت ہے وہ تابعین اور تبع تابعین کے حوالے کی نہیں۔ اگر اس ہی فارمولے کے حساب سے دیکھا جائے تو وہ لوگ جو کسی قسم کے حالات سے خود گزے ہوں وہ سب سے زیادہ ان حالات کے بارے میں جانتے ہوں گے اور اس کے بعد وہ جو ان لوگوں کی صحبت میں ہوں اور پھر وہ جو صحبت یافتہ کی صحبت میں ہوں۔

اب ان کی بات کی اہمیت کا بھی وہی فارمولا ہے جو پہلے بیان ہوا۔ کچھ لوگ ایک معاملہ کا حصہ ہوتے ہیں وہ اس کے بارے میں سب سے اچھی معلومات رکھتے ہیں اس کے بعد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس معاملہ کا حصہ لوگوں کے قریب ہوتے ہیں اور اس کے بعد وہ ہوتے ہیں جن پر اس معاملے کا اثر پڑا ہے اور وہ صرف اس اثر کی بنیاد پر اپنا تجزیہ اخذ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنا تجزیہ اخذ کرنے کی خاطر مطالعہ بھی کرتے ہیں مگر اس مطالعہ میں بھی اس اثر کا اثر رہتا ہے۔

اور وہ تجزیہ اس معاملے سے زیادہ تجزیہ کار کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اب اس معاملہ کے بارے میں تحقیق کرتے ہوئے جس طرح کی اجتماعی سوچ نظر آئے وہی سوچ اس معاملے کے نتائج کے طور پر دیکھی جاتی ہے پر وہ نتائج بھی اس تحقیق تک محدود ہوتے ہیں اور آنے والے وقتوں میں کوئی نئی تحقیق کوئی نئے نتائج بھی اخذ کر سکتی ہے۔

یہ دور بہت تیزی کا دور ہے۔ کسی بھی چیز کو پرکھنے کے معیار میں تیزی کا عنصر ضرور دیکھا جاتا ہے۔ اور شاید یہی تیزی کا عنصر حالات میں بھی ہے اور اب شاید تاریخ بہت تیزی سے اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اس تیزی کے دور میں بہت تیزی سے آگے بڑھنے کے لئے انہی طریقوں پر چل رہے ہیں جن پر ان سے پچھلے لوگ چلے اور وہی غلطیاں پھر سے دہرا رہے ہیں جو ان سے پہلے لوگ کرتے چلے آئے ہیں۔ وہی طریق جو کچھ عرصہ تو فائدہ دیتے ہیں پر کچھ وقت بعد وہی غلطی کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں جو پچھلے لوگ کر گئے۔

پر اس غلطی تک پہنچتے ایک نئی نسل جوان ہو جاتی ہے جو وہی کچھ سیکھتے پلی بڑھی ہوتی ہے۔ اس نئی نسل کے لئے وہ بس ایک جاتی نسل کی غلطی ہوتی ہے جسے وہ سنبھال سکتی ہے اور آگے بڑھ جاتی۔ اس لئے یہ چکر چلتا رہتا ہے اور دہائیوں پر محیط جمود چلتا چلا جاتا ہے۔ اس جمود کو توڑنے کی نہ کوئی ہمت کرتا ہے اور نہ کوئی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ ہر کوئی یہ سوچ کر زندگی گزار رہا ہوتا ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے اصولوں سے اچھی طرح واقف ہے اور جدید دور میں زندگی گزارتے ہوئے کچھ جدت اپنے اندر محسوس کرنے لگتا ہے اوروہ اس کو مطمئن رکھنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔

مگر اصل میں وہ ماضی میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ وہ خود غرض ہو کر صرف اپنے لئے محدود زندگی گزارتا ہے۔ جب تک وہ اس جمود کو توڑ کر کچھ نیا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا وہ آنے والی نسلوں کے لئے قابل تقلید نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے پاس کچھ اپنا نہیں ہے وہ ایک کوہلو کے بیل کی مانند ہے جو گول گول چکر کاٹ رہا ہے اور نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنے سے پہلے اسہی چکر میں بندھے ہوئے بیلوں میں سے کس کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔

پر کچھ لوگ ہر زمانے میں ایسے ہوتے ہیں جو حال میں جینا چاہتے ہیں۔ وہ ماضی سے آگے نکلنا چاہتے ہیں۔ ان کی سوچ زندگی کے ان طریقوں کو بہتر بنانے کی ہوتی جن پر ان کے بڑے اپنی زندگی گزارتے آئے ہیں۔ تاکہ مستقبل میں آنے والی نسلیں بہتر زندگی گزاریں۔ وہ نت نئے کارنامے سرانجام دیتے ہیں۔ نئی نئی تحقیق کرتے ہیں۔ بہت سی جدت لے کر آتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کی زندگیاں بہتر ہو جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ ان کی نئی تحقیق اور ایجادات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

یہ وہ جدت ہوتی ہے جو ماضی میں زندگی گزارتے لوگوں کی زندگیوں میں ان لوگوں کی محنت اور کاوشوں کی وجہ سے آتی ہے۔ جو حال میں جی رہے ہوتے ہیں۔ یہ ماضی میں جینے والے اس جدت کو دیکھ کر خفت میں دو قدم اور پیچھے ہوجاتے ہیں اور اس خفت کو مٹانے کے لئے انھوں نے انعام و اکرام سے نوازنے کا صدیوں پرانا طریق رکھا ہوا ہے۔ وہ آج کے انسان کو تمغوں، اعزازات، انعامات سے نوازتے ہیں جس سے ان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی آج کے انسان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ماضی کا انسان اسی سے بہت خوش ہے کیونکہ یہ عمل بھی اصل میں اس ہی جمود کا حصہ ہے۔

پر آج کا انسان جو اس قدیم انسان کو دوبارہ پیدا کر سکتا ہے پر اس لئے نہیں کر رہا کہ اس کا کریں گے کیا۔ اپنے ساتھ اس کو رکھ نہیں سکتے کہ آج کے انسان کو ماضی میں رہنا پسند نہیں اور چڑیا گھر میں نمائش کے لئے رکھنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

اطہر محمود خان
Latest posts by اطہر محمود خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).