خان صاحب، تبدیلی کا ٹرائل ورژن کب تک چلے گا؟


پاکستان میں تبدیلی کو آئے ایک سال گزر چکا اور اس ایک سال میں ہر اُس پاکستانی نے بھی تبدیلی کا ٹرائل ورژن ڈاؤن لوڈ کرلیا جس نے پچھلے سال 25 جولائی کو بلے والے غیر آزمودہ نشان کو جھٹلا کر شیر اور تیر کے نشان والے کرپٹ سوفٹ ویئرز پر ٹھپے لگائے تھے۔

مسئلہ اب یہ ہے خان صاحب کہ آپ کے کہنے پر ڈاؤن لوڈ کردہ تبدیلی کو آزماتے ہوئے ایک سال مکمل ہوچکا ہے اور جن لوگوں نے زندگی کے سسٹم میں بہتری لانے کے لیے تبدیلی کا ٹرائل ورژن ڈاؤن لوڈ کیا تھا، ان کے سسٹمز ہینگ ہونے لگے ہیں۔ سسٹم رواں رکھنے کے لیے درکار بجلی، گیس اور پٹرول مہنگا ہو چکا ہے۔ ڈالرآپے سے باہر ہو چکا ہے لیکن تبدیلی، پیٹ میں اُٹھنے والے مروڑ کی طرح بس تکلیف ہی دے رہی ہے۔ جس کی وجہ سے دو نہیں ایک پاکستان کے رہائشی، پہلے کنٹرول آلٹ ڈیلیٹ دبا کر تبدیلی سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور پھر ناکامی پر سیدھا ان کا ہاتھ ری سٹارٹ کا بٹن ڈھونڈ رہا ہے۔

اس ایک سال میں ان تبدیلی کے متلاشیوں کو خان صاحب آپ یہ کہہ کر چونا لگاتے رہے کہ ماضی میں سسٹم چلانے والے کرپٹ تھے اور ان کے جانے کے بعد بھی سسٹم میں پائے جانے والے کرپٹ عناصر سے چھٹکارے میں کچھ وقت لگے گا۔

آپ اور آپ کے فارمیٹ شدہ رہنماؤں اور صحافیوں نے سوشل میڈیا اور برقی میڈیا کے ذریعے آپ کی ایسی مارکیٹنگ کی کہ تبدیلی کے خواہشمند یہ سمجھنے لگے کہ اگر اس بار بھی اس تبدیلی کو آزمایا نا گیا تو پورے پاکستان کا نظام ویسے ہی ختم ہوجائے گا۔ جیسے اکیسویں صدی کے آغاز میں افواہ تھی کہ نئی صدی چڑھتے ہی دنیا کے تمام کمپیوٹرز بند ہوجائیں گے۔ لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔

اس ایک سال گزرنے کے بعد خان صاحب اب حالات یہ ہوچکے ہیں کہ آپ کی تبدیلی کے آزمائشی ورژن کو ڈاؤن لوڈ کرنے والے سوشل میڈیا اور میڈیا پر چلائے جانے والی ان انتخابی مہم جوؤں کی تلاش میں ہیں۔ جو نئے پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہننے کی نوید سناتے تھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے سوشل میڈیا پر آنے والے اشتہاروں میں اشیا بالکل امپورٹڈ لگتی ہیں لیکن آرڈر کرنے پر جب گھر پہنچتی ہیں تو خریدار ان اشتہاروں کی تلاش میں ہوتا ہے جسے دیکھ کر وہ ہوم ڈلیوری کا آرڈر کرتے ہیں۔

خان صاحب، ابھی تک تو آپ کی لائی گئی تبدیلی بھی اس سوفٹ ویئر کی مانند لگ رہی ہے جس کی ایک سی ڈی خریدنے پر کئی دیگر سوفٹ ویئرز ساتھ میں مفت مل جاتے ہیں اور اصل درکار سوفٹ ویئر سو روپے میں خریدی گئی سی ڈی جیسا کرپٹ نکلتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جو سی ڈی پرانے پاکستان میں پچاس روپے میں ملتی تھی۔ اب سو روپے کی ملتی ہے۔

اس ایک سال میں خان صاحب ہم نے آپ کو پرانے کرپٹ سسٹم سے متعلق ایک ہی تقریر متعدد بار کرتے پایا۔ حتیٰ کہ بین الاقوامی دوروں پر بھی آپ انہی فارمیٹیڈ رہنماؤں کے ہمراہ پرانے نظام کی برائیاں کرتے نظر آئے۔ جن کا حصّہ آپ کے ارد ہرد کھڑے زیرو لیول فارمیٹییڈ رہنما ماضی میں تھے۔

خان صاحب اب صورتحال یہ ہے کہ کرپٹ نظام میں تعینات کردہ کمپیوٹر لیب کے انچارج کو دی گئی ایکسٹینشن کے ذریعے آپ چاہتے ہیں کہ آپ پر نا سہی، لیب انچارج پر بھروسا کرتے ہوئے ہی تبدیلی کے استعمال کنندگان نئے پاکستان پر بھروسا کریں۔ کیونکہ اس نظام کو بھی لیب انچارج نے انتہائی منصوبہ بندی اور پرانے نظاموں کے قابل استعمال کرپٹ عناصروں کے ملاپ سے ڈیزائن کیا ہے۔

لیکن مسئلہ اب یہ ہے خان صاحب کہ ہم پاکستانیوں کے معدے یا تو کھائے گئے خراب، مضر صحت کھانے کو کھا کر تکلیف سے کراہتے رہتے ہیں یا پھر پہلے گھر کے آزمودہ ٹوٹکوں جیسے پھکی، پانی ملی سیون اَپ، کالا نمک اور اجوائین، وغیر وغیرہ آزماتے ہیں اور آرام نا آنے کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع تب کرتے ہیں جب ڈاکٹر کے پاس معدہ واش کرنے کے علاوہ کوئی حل نہیں ہوتا۔

خان صاحب، اب ایسے ہی کچھ حالات تبدیلی کے آزمائشی ورژن کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد ہم پاکستانیوں کے ہو چکے ہیں۔ حالات اب یہ ہوچکے ہیں کہ نا تو اب ہم پہلے سے آزمودہ کرپٹ نظام چلانے والوں کو آزما سکتے ہیں اور نا ہی آپ کی بذریعہ لیب انچارج لائی گئی ٹیسٹ ٹیوب تبدیلی ہمیں جینے دے رہی ہے اور سب سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ کہ لیب انچارج بھی ہمیں اس تبدیلی کو بیاہ کر لائی گئی بہو کی طرح، برداشت کرنے اور وقت دینے کا پیغام دے رہا ہے۔ جس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہیں لیکن خان صاحب، تبدیلی کا واسطہ ہے۔ ہمیں آپ، خود کو منتخب کرنے کی سزا نا دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).