’سیاسی پہلوانی‘ کو بیان کرنے والی کتاب: ’دی گیم آف ووٹس‘


پروفیسر فرحت بصیر خان میڈیا کی دنیا کا نیا نام نہیں۔ موصوف تین دہائیوں سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اے جے کے ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ ’ویژول کمیونی کیشن‘ کے علاوہ جرنلزم اور تحقیق کے شعبوں میں بھی ان کے نمایاں کام ہیں۔ حال ہی میں اُن کی ایک عمدہ کتاب ’دی گیم آف ووٹس‘ منظرعام پر آئی ہے، جس میں ’ووٹ کے کھیل‘ کے موضوع کو تخلیقی جامہ پہنایا ہے۔ انداز بیان، زبان اور معلومات کے سبب یہ کتاب، سیاست کے طالب علموں کو متوجہ ہی نہیں کرتی، بلکہ اُن کی دل چسپی کا سامان بھی فراہم کرتی ہے۔

’دی گیم آف ووٹس‘ انتخابی میدان کے ’کھلاڑیوں‘ کے ’گیم پلان‘ سے نہ صرف آگاہ کرتی ہے، بلکہ ’سیاسی اداکاری‘، مکر و فریب، اخلاقی زوال، فکری انحطاط اور اُن جملہ اوصاف حسنہ سے عاری سیاسی حرکات کا محاسبہ بھی کرتی ہے، جن کی موجودی میں ’اخلاقی اقدار‘ اور ’عمدہ سیاسی کردار‘ کے پنپنے اور صالح سیاسی نظریے کے فروغ پانے کی دور دور تک گنجائش نہیں نکل پاتی۔

کتاب میں اہم اداکاروں اور ستاروں کی سیاسی سرگرمیوں کے عروج و زوال کا قصہ تو بیان کیا ہی گیا ہے، ساتھ ہی ڈیجیٹل ایرا میں، سیاسیات کومخصوص نہج پر لے جانے کے لیے ٹیکنالوجی کاسہارا لیتے ہوئے ’پروپیگنڈہ مشنری‘ کو کیسے زیر استعمال لایا جا رہا ہے، اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ’جعل سازی‘ اور ’سیاسی فریب کاری‘ سمجھانے میں یہ کتاب بڑی مددگار ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ سیاسی اسٹیج کو سجانے اور مسند اقتدارپر قبضہ جمانے کے لیے فی زمانہ ایسے اوچھے ہتھ کنڈے اور رویے بھی اپنائے جا رہے ہیں، جس کے بارے میں عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہندوستان ہی نہیں، بلکہ دنیا بھر میں جاری ’ووٹوں کے کھیل‘ کے لیے، سیاسی سرگرمیوں کے پیچھے کی کہانی بیان کرتی، ایک دل چسپ کتاب ہے۔

اس کتاب کا مطالعہ ہندوستانی سیاست کی تفہیم کے لیے نا گزیر ہے۔ ’دی گیم آف ووٹس‘ فکر و آگاہی کے کئی در وا کرتی ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ کس طرح سیاسی جماعتیں، رفتہ رفتہ اپنے طور پر انتخابی مہم چلانے کی بجائے اعلی پائے کی اشتہاری ایجنسیوں کی خدمات حاصل کرنے میں منہمک ہو گئیں اور کس طرح عوام کی خدمت گزاری کی جگہ حصول اقتدار کے لیے سیاسی کشتی لڑی جانے لگی۔ اس میں یہ کہانی بھی بیان کی گئی ہے کہ مودی نے کیسے 2014 کے انتخابات میں کام یابی حاصل کی اور 2019 میں پھر غیر معمولی کام یابی کا رِکارڈ بنایا۔

اس کتاب کے مطالعے سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ امریکا میں اوباما اور ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کس طرح چلائی اور کہاں کہاں پروپیگنڈہ ٹول کا سہارا لیا۔ اس کتاب میں کثیر الجہتی انتخابی مہم اور جمہوریت کی سیاست میں ہندوستان کی سیاسی مارکیٹنگ کی ہلچل، بصری سیاسی مواصلاتی ماڈل جیسی چیزوں کی کہانی خوبصورت انداز میں بیان کی گئی ہے۔ اس کتاب میں امریکا اور یورپ کی سیاسی سرگرمیوں کی جھلک بھی ہے اور مصر و جنوب مشرقی ایشیا کی اہم سیاسی پیش رفت کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔ مغربی دنیا کے تبدیل ہوتے مزاج اور ہندوستان میں تیزی سے بدلتے منظر نامے کا موازنہ بھی ’دی گیم آف ووٹس‘میں موجود ہے۔

کتاب کا پیش لفظ معروف سابق صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھر جی نے رقم کیا ہے۔ پرنب مکھر جی نے اپنے مختصر، مگر پر مغز مقدمے میں اپنے 45 سالہ تجربات کی روشنی میں انتخابات اور اس کے پیچھے کی کہانی، کہ کس طرح سے میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کو ہتھ کنڈے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اس کی کہانی بیان کی ہے، جو خاصے کی چیز ہے۔

اس کتاب میں کل سات ابواب ہیں: پہلا باب قدیم سیاست، نیا میڈیا: ہندوستان میں انتخابی مہم۔ دوسرا، علاقائی سیاسی جماعتوں کا رویہ اور اہم انتخابی کارروائیوں کا نتیجہ۔ تیسرا، مثالیت پسندی سے بت پرستی تک۔ چوتھا، بڑے بین الاقوامی الیکشن انتخابی مہم اور جمہوریت۔ پانچواں، ہندوستان میں سیاسی مارکیٹنگ کی ہلچل۔ چھٹا، بصری سیاسی مواصلات کا ماڈل۔ ساتواں، دی چارج آف دی لائٹ بریگیڈ، ہے۔

ابتدائی صفحات میں معروف مورخ عرفاں حبیب، ضیا السلام، مہیش شرما، پون کے ورما جیسی معزز شخصیات کے گراں قدر خیالات کو شامل کیا گیا ہے۔ حاصل مطالعہ یہ ہے کہ ’دی گیم آف ووٹس‘ کوعلم و تحقیق کی دنیا میں ایک شاہ کاراضافے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ کتاب کو سیج پبلیکیشن نے شایع کیا ہے۔ قیمت 595 ہندوستانی روپے ہے۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah