شہبازشریف ووٹ کی عزت اور سویلین بالادستی نہیں مفاہمت چاہتے ہیں


نواز شریف سے معاملات طے پائے جانے کی اطلاعات گردش میں ہیں۔ بعض نے تو مکمل پلان ہی طشت ازبام کردیا کہ نواز شریف کی تمام شرائط کو من وعن تسلیم کرلیا گیا ہے اور نقارہ بجنے والا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت بنائی جائے گی۔ مقتدرہ اپنے کیے کی سر عام معافی بھی مانگے گی اور تمام مقدمات کو غلط قرار دے کر ختم کردیا جائے گا۔ عمران خان کو باعزت طریقے سے گھر کی راہ دکھا دی جائے گی کیوں کہ عمران خان ملک چلانے میں مکمل فیل ہوچکے ہیں۔

اس ناکامی کے باعث مقتدرہ نہ صرف مایوس ہوئی ہے بلکہ سخت ناراض ہے کہ عمران خان اپنے وعدوں اور دعوؤں کے برعکس کچھ نہیں کر پائے ہیں۔ اس امر کی تصدیق رشیخ رشید نے بھی کردی کہ شہباز شریف دوبارہ ایکٹو ہوئے ہیں اور مقتدرہ نواز شریف سے بات کررہی ہے۔ شیخ رشید نے حسب سابق جو کہنا تھا کہہ دیا۔ بات کھول بھی دی اور چھپا بھی گئے۔ شہبازشریف مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہونے کے باوجود نہ مسلم لیگ ن کے صدر کے طور پر کھل کر چل پارہے ہیں اور نہ بطور اپوزیشن لیڈر بات بن رہی ہے۔

بڑے بھائی کا سایہ دم مارنے نہیں دیتا ہے۔ نواز شریف تو نواز شریف ہیں، مریم نواز کا پرتو مت مار دیتا ہے۔ شہباز شریف کی سیاست کے لئے مریم نواز بیٹی ہونے کے باوجود سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مسلم لیگی حلقے اور کارکنان نواز شریف کے بعد صرف مریم نواز کے حلقہ اثر میں ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ شہباز شریف مریم نواز کے ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس نہیں کر سکتے ہیں۔ کوئی جلسہ نہیں کر سکتے ہیں۔ پریس کانفرنس ہو تو میڈیا کی توجہ مریم نواز کی طرف ہوتی ہے۔

جلسہ ہو توعوام کی جانب سے نعرے مریم نواز کے لگائے جاتے ہیں۔ واقعاتی شہادتوں اورمجموعی صورتحال یہ ثابت کرتی ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی زیادہ پریشانی میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کو ہے۔ حکمرانوں کو اتنی عجلت نہیں ہے جتنی برادران یوسف کو ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز سیاست سے کنارہ کشی یا ملک سے باہر جانے پر راضی ہو جائیں۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ سنجیاں ہو جاون گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے۔

قیاس ہے کہ نواز شریف کے ساتھ مقتدرہ کی جانب سے مفاہمت کی خبریں پھیلانے کے ماسٹر مائند بھی چھوٹے میاں ہیں اور چھوٹے میاں ہی مقتدرہ سے بات کرتے ہیں جو نواز شریف مسترد کردیتے ہیں۔ نواز شریف بھی شاید چھوٹے بھائی کی خواہش سے واقف ہیں۔ شہباز شریف کی سیاسی زندگی مقتدرہ کے ساتھ جوڑ توڑ پر مبنی ہے۔ مزاحمت کی سیاست میں شہباز شریف کبھی نواز شریف کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے ہیں۔ وہ ہر حال میں مفاہمت چاہتے ہیں بے شک نواز شریف کی قربانی دینا پڑے۔

ووٹ کی عزت کا فلسفہ اور سویلین بالادستی کی بات ڈیل اور مفاہمت کی کہانیوں میں کھوکر رہ گئی ہے۔ شہباز شریف کی مفاہمتی کوشش پر نواز شریف کا ردعمل شرائط پر مبنی ہوتا ہے۔ مطالبات رکھے جاتے ہیں۔ خفت مٹانے کی خاطر ڈیل اور مفاہمت سے بھی انکار کیا جاتا ہے۔ ڈیل اور مفاہمت کی حقیقت یہی ہے کہ شریف برادران سیاست نہیں کاروبار کرتے ہیں اور اچھا کرتے ہیں۔ سیاست ان کے لئے ایک بہترین اور توانا کاروباری ہتھیار ہے۔

آج نہیں تو کل شہباز شریف معاملات طے کر نے میں کامیاب ہوں گے۔ مفاہمت، ڈیل کی کوئی بھی شکل ہو سکتی ہے۔ نواز شریف سیاست سے کنارہ کشی پر راضی ہو سکتے ہیں۔ بیرون ملک جا سکتے ہیں۔ ڈیل کے ماہرین کچھ اسی صورت بھی نکال سکتے ہیں کہ سانپ بھی مرجائے اور ڈنڈا بھی بچا لیا جائے۔ جو لوگ نواز شریف اور مریم نواز سے سویلین بالادستی کے لئے جدوجہد کرنے کی امید رکھتے ہیں انہیں شاید اس بات کا علم نہیں ہے کہ شریف خاندان کے لوگ بہت سیانے ہیں۔ وہ کبھی اپنا نقصان نہیں ہونے دیتے ہیں۔ ایسا جذباتی پن بھٹو ز میں ہی پایا جاتا ہے جو شہادت کو مفاہمت پر ترجیح دیتے ہیں اور گڑھی خدا بخش کا قبرستان آباد کرتے چلے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).