جھوٹی خبر کی تاریخ اور پاکستانی میڈیا میں اصلاحات


جھوٹی خبروں کو پھیلانا، ان سے معاشرے میں اضطراب پیدا کرنا اور ان سے ذاتی و معاشی فائدے حاصل کرنے کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ انسان کب سے جھوٹی خبروں کا شکار ہے اس حقیقت کو جاننے کے لیے ہمیں ہزاروں سال پرانی انسانی تاریخ میں جھانکنا ہو گا۔

اگر ہم قدیم زمانے کی بات کریں تو پہلی صدی قبل مسیح میں مشہور زمانہ رومن سیاستدان اور جزل مارک انٹنی کی خودکشی کی وجہ ایک جھوٹی خبر ہی تھی۔ دوسری اور تیسری صدی عیسوی میں عیسائیوں کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں کہ عیسائی آدم خوری کے عادی ہیں اور اس کے علاوہ ماں باپ بچوں کے ساتھ اور بھائی بہنوں کے ساتھ شادی کرتے ہیں۔ بغیر تصدیق کیے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی گئی جس نے عیسائیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

1475 میں جھوٹی خبر پھیلائی گئی کہ یہودی کمیونٹی نے سائمن نامی ڈھائی سال کے عیسائی بچے کو قتل کر دیا ہے۔ اس خبر کے نتیجے میں شہر کے سارے یہودیوں کوگرفتار کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پندرہ یہودیوں کوزندہ جلا دیا گیا۔ پوپ نے جب مداخلت کی کوشش کی تو پلوں کے نیچے سے کافی پانی گزر چکا تھا اور معاملات قابو کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔

1439 میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد خبروں کی باقاعدہ اشاعت کا آغاز ہوا۔ اس وقت صحافت کے کوئی اصول اور ضابطے طے نہیں کیے گئے تھے۔ 1610 میں مشہور زمانہ گلیلیو کے ٹرائل کے دوران خبر اور ثبوتوں کی تصدیق پر بہت زور دیا گیا۔ سترہویں صدی میں تاریخ دانوں نے خبر کے ساتھ ذرائع کا حوالہ دینا شروع کیا۔ اٹھارویں صدی کے دوران پہلی مرتبہ نیدر لینڈ میں جھوٹی خبر دینے والوں اور چھاپنے والوں کے لیے جرمانے اور بندش جیسی سزاؤں کا تعین کیا گیا۔ ڈچ حکومت نے جھوٹی خبر دینے پر جیرارڈ نامی شخص کو چار مرتبہ سزا دی، پرنٹنگ پریس بند کیا اور اسے چاروں مرتبہ نیا پرنٹنگ پریس شروع کرنا پڑا۔

اٹھارویں صدی میں ”دی سن“ نامی نیویارک اخبار نے ”گریٹ مون ہوکس“ کے نام سے ایک جھوٹی کہانی شائع کی۔ اس میں مختلف تصویریں شائع کی گئیں جن میں انسان نما جانور کو چاند پر پروں کے ساتھ اڑتا ہوا دکھایا گیا تھا۔ اس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جارن ہارشل نامی خلا باز نے چاند پر نئی تہذیب اور دنیا دیکھی ہے۔ اس کہانی کے چھ آرٹیکل شائع ہوئے جس نے اس اخبار کی فروخت میں ڈرامائی اضافہ کیا لیکن جب ایک ماہ بعد قارئین کوعلم ہوا کہ یہ کہانی جھوٹ پر مبنی ہے تو اخبار کو بہت برے عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اور جرمانہ بھی کیا گیا۔

انیسویں صدی میں جوزف پولٹزر اور ولیم رنڈولف نے زرد صحافت کو عروج بخشا۔ یہ دونوں اخبارات کے مالک تھے۔ اخبارات کی فروخت بڑھانے کے لیے انھوں نے سنسنی خیز اور جھوٹ پر مبنی خبریں شائع کرنا شروع کیں۔ اخبارات کی فروخت بڑھی لیکن ان جھوٹی خبروں نے امریکہ کو اسپین امریکہ جنگ میں دھکیل دیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں 18150 لوگوں کی موت ہوئی اور 2445 لوگوں زخمی ہوئے۔

بیسویں صدی میں پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے ا نٹیلی جنس کے آرمی چیف جان چارٹرز نے چائنہ کو جرمنی سے بدظن کرنے کے لیے جرمن محالف جھوٹی کہانی شائع کروائی۔ جس میں کہا گیا کہ جرمن فیکٹریاں جنگ کے دوران مر جانے والے فوجیوں اور عوام کی لاشوں کو صابن، گلیسرین، جوتے اور روز مرہ کی دیگر اشیا بنانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس کہانی سے جرمن ایکسپورٹ کو شدیددھچکا لگا اور جرمن معیشیت تباہی کے دہانے تک پہنچ گئی۔

اوپر بیان کیے گئے حقائق ماضی میں پھیلائی جانے والی اور شا ئع ہونے والی جھوٹی خبروں کی ایک جھلک ہے۔ جنھوں نے تاریخ کا رخ موڑ دیا اورانسانی اور صحافتی بربریت کی بدترین مثالیں قا ئم ہوئیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہزاروں سالوں کی جھوٹی خبروں کی تاریخ کے باوجود ہم اس بیماری سے جان نہیں چھڑا پائے اور اکسویں صدی میں بھی جھوٹی اور غیر مصدقہ خبروں کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اکیسویں صدی میں خبر کا اثر ماضی کی نسبت سب سے زیادہ ہے۔

اکیسویں صدی کا میڈیا سٹیلائیٹ اور سوشل میڈیا ہے۔ اس میڈیا کے تحت کوئی بھی خبر سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں پوری دنیا کے سات براعظموں میں ایک ہی وقت میں پہنچائی جاتی ہے۔ امریکہ سے نکلی ایک خبر چندلمحوں میں پوری دنیا کی سٹاک ایسکچینج کو تباہ کر سکتی ہے اور روس سے نکلی ایک خبر چند سیکنڈز میں امریکہ کا چہرہ بگاڑ سکتی ہے۔ غلط خبر (Fake News) کو 2017 میں امریکہ میں Word Of The Year کا نام دیا گیا ہے اور اسے جمہوریت اور آزادی رائے کے لیے سب سے بڑا خطرہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ غلط خبر (Fake News) چند سالوں میں میڈیا کی دنیا میں سب سے زیادہ بولے جانے والا لفظ بن کر ابھرا ہے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا کو اس خطرے کا سامنا ہے۔ اس میڈیا میں الیکٹرانک پرنٹنگ اور سوشل میڈیا شامل ہیں۔

ان حالات کے پیش نظر نیدر لینڈ میں انٹرنیشنل فیڈریشن آف لائبریری ایسوسی ایشنز اینڈ انسٹیٹیوشنز کے نام سے ایک اداراے کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کے تحت عوام کو جھوٹی خبروں کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے تعلیم دی جا رہی ہے۔ غلط خبر کو پرکھنے کے لیے اس ادارے نے دماغی سائنس کے ماہرین کی مدد سے آٹھ اصول شائع کیے ہیں۔ جب بھی کوئی خبر آپ تک پہنچے اس پر یقین کرنے سے پہلے ا سے ان آٹھ اصولوں کے مطابق پرکھیں۔

پہلا اصول یہ ہے کہ جب بھی کوئی خبر آپ تک پہنچے تو اس خبر کے مقصد کو سمجھنے کے لیے اس کے ذرائع کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔

دوسرا اصول یہ ہے کہ جو خبر آپ کو دی جارہی ہے اس خبر سے ہٹ کر باقی پہلوؤں پر بھی غور کریں تاکہ تمام پہلو اور مکمل کہانی آپ کی سمجھ میں آ سکے۔

تیسرا اصول یہ ہے کہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ خبر لکھنے والا یا سنانے والا کون ہے۔ اور ماضی میں اس کی خبریں سچ تھیں یا جھوٹ پر مبنی تھیں۔

چوتھا اصول یہ ہے کہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ خبر کے علاوہ خبر کے متعلق دیے جانے والے دلائل اور ثبوتوں کو کون سے ذرائع مستند قرار دے رہے ہیں اور کون سے غیر مستند کہہ رہے ہیں۔

پانچواں اصول یہ ہے کہ خبر کے شائع ہونے کی تاریخ نوٹ کریں تاکہ اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ خبر اپڈیٹ اور متعلقہ ہے یا نہیں۔

چھٹا اصول یہ ہے کہ اگر خبر میں مذاق کیا گیا ہے تو جاننے کی کوشش کریں کہ یہ تنقید کے پہلو سے کیا گیا ہے یا اس میں کوئی حقیقت بھی موجود ہے۔

ساتواں اصول یہ ہے کہ خبر پر یقین کرنے سے پہلے اپنی پسند اور ناپسند کو بھی مدنظر رکھیں۔ تا کہ یہ پہلو بھی آپ کے ذہن میں رہے کہ آپ کہیں غلط خبر پر اس لیے تو یقین نہیں کر رہے کیونکہ یہ آپ کو پسند ہے اور اس میں آپ کا فائدہ ہے۔

آٹھواں اور آخری اصول یہ ہے کہ جس شعبے کے متعلق خبر ہو اس شعبے کی خبروں کے ماہرین سے رائے لی جائے تاکہ تمام ممکنہ دیگر پہلو بھی کھل کر سامنے آ سکیں۔

پوری دنیامیں جھوٹی خبر کو پرکھنے کے لیے تمام صحافتی تنظیمیں، سکول اور کالجز انٹرنیشنل فیڈریشن آف لائبریری ایسوسی ایشنز اینڈ انسٹیٹیوشنزکے آٹھ اصولوں کو اپنے سلیبس کا حصہ بنا رہی ہیں۔ سیمینار منعقد کر وائے جا رہے ہیں۔ ٹریننگ کلاسز دی جا رہی ہیں اور جھوٹی خبر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے فنڈز بھی مختص کیے جا رہے ہیں۔ اس سلیبس میں یہ بھی آگاہی دی جا رہی ہے کہ کس طرح کے لوگ صحافی بن سکتے ہیں اور کسی بھی شخص کو صحافی کا سرٹیفیکیٹ دینے کے لیے کون سی تعلیم، سنداور سپیشلائزیشن درکار ہے۔

اس حوالے سے تائیوان میں ”میڈیا لٹریسی“ کے نام سے نیا پروجیکٹ شروع کیا گیاہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت جھوٹی خبر کو جانچنے اور اس سے بچنے کے طریقہ کار کو بچوں کے سلیبس کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ ان اقدامات کے بعد تائیوان ایشیا میں آزادی رائے کے حوالے سے کی گئی کوششوں میں پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک پاکستان میں جھوٹی خبر نشر کرنے اور پھیلانے سے روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے 2018 میں زینب قتل کیس میں پوری دنیا کے سامنے سینہ تان کر جھوٹ بولا ہے اور آدھی پاکستانی عوام ان کی اس خبر پر ایمان بھی لے آئے تھے۔

ڈاکٹر شاہد مسعود نے 24 جنوری 2018 کو الیکٹرانک میڈیا پر خبر دی تھی کہ زینب کو قتل کرنے والے مجرم عمران علی کے پاکستانی اور غیر ملکی کرنسی میں چالیس سے زیادہ بینک اکاؤنٹس ہیں۔ یہ سب اکاؤنٹس عمران خود آپریٹ کرتا ہے اور ان اکاؤنٹس میں پورنوگرافی سے کمائے گئے لاکھوں ڈالرز اور پاؤنڈز بھی موجود ہیں۔ سپریم کورٹ پاکستان نے خبر کا نوٹس لیا اور اینکر سے تفصیلات مانگ لیں۔ اینکر صاحب نے ایک سادہ صفحے پر بینکوں کے ناموں کی تفصیلات جمع کروا دیں۔

حکومت نے تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ مجرم عمران علی کے نام پر پورے ملک میں ایک بھی بینک اکاونٹ نہیں ہے۔ بعدازاں ڈاکٹر صاحب نے معافی مانگ کر معاملہ رفع دفع کروالیا، لیکن ایک جھوٹی خبر سے جو بدنامی ملک پاکستان کی ہوئی تھی اور پاکستانی عوام اضطراب اور بے چینی کی جس کیفیت سے گزری تھی اس کا ذمہ دار کون ہے؟ میرے نزدیک اس ساری صورتحال کا ذمہ دار نام نہاد اینکر، اس اینکر کو ڈائیرکٹر نیوز بنانے والا میڈیا ہاؤس اور سالہا سال تک اس اینکر کو میڈیا پر نشر ہونے سے نہ روکنے والا سرکاری ادارہ پیمرا ہے۔

کم علمی، عد م دلچسپی اورنا اہلی کی حالت یہ ہے کہ ملک پاکستان میں سرکاری اور نجی سطح پر اینکر، ڈائیرکٹر نیوز، رپورٹر، نیوز کاسٹر بننے کا نہ تو کوئی معیار ہے اور نہ ہی کوئی مخصوص تعلیم ہے۔ پنکچر لگانے والے، دودھ بیچنے والے، دکان چلانے والے حتی کہ جمعداروں تک کو صحافی مان لیا جاتا ہے اور یہ لوگ ہماری صحافتی تنظیموں کے با عزت ممبر بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جھوٹی خبر وں کو جانچ پڑتال کے عمل سے گزارے بغیر نشر کر دیا جاتا ہے اور لوگ اس پریقین بھی کر لیتے ہیں۔

میری چیف جسٹس پاکستان سے گزارش ہے کہ آپ جھوٹی خبر کے کسی ایک کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ اگر خبر جھوٹ اور افسانوں پر مبنی ہو تو آپ خبر دینے والے کا نام ای س ایل میں ڈال دیں۔ ان کے خلاف دہشت گردی، میڈیا کا غلط استعمال، ملک کی امیج خراب کرنے کے مقدمات چلائیں اور ان کا اوپن کورٹ ٹرائل شروع کر دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ پیمرا کے چئیرمین، میڈیا ہاؤسز کے مالکان، سینئر اینکرپرسنز اور کالم نگاروں کو میڈیا ریگولیشن بنانے میں شامل کرنے کی ہدایت کریں۔

اس کے علاوہ میری وزیرا عظم پاکستان سے گزارش ہے کہ آپ بھی اس معاملے میں کود جائیں اور میڈیا کو مضبوط کرنے کی موثر ترین پالیسیاں بنا لیں۔ میڈیا ہاؤسز کو پابند کیا جائے کہ کوئی بھی میڈیا مالک کسی بھی شخص کو پروگرام اینکر کی نوکری نہیں دے سکتا جب تک وہ پیمرا سے اجازت نہ لے لے۔ پروگرام اینکرز کے بھی لائسنس پیمرا جاری کرے۔ جن کی معیاد ایک سال ہو اور تمام اینکرز ہر سال وہ لائسنس ری نیو کروانے کے پابند ہوں۔

جب بھی کوئی اینکر پروگرام میں جھوٹ بولتا ہے یا بلیک میل کرتا ہے تو اسے کوئی جرمانہ نہیں کیا جاتا۔ اصل جرمانہ میڈیا مالکان کو کیا جاتا ہے کیونکہ وہ پیمرا کے لائسنس ہولڈر ہوتے ہیں جبکہ اینکرز کسی اور چینل پر جا کر پروگرام شروع کر دیتے ہیں۔ میڈیا مالکان کو ہونے والے جرمانے بھی مضحکہ خیز ہیں۔ میڈیا میں سب سے زیادہ جرمانے کی حد دس لاکھ روپے ہے جو کہ بہت کم ہے۔ میڈیا ہاؤس کم و بیش دو سو کروڑ کی انویسٹمنٹ کا پروجیکٹ ہے جو ماہانہ کڑوروں روپے کماتے ہیں ان کے لیے دس لاکھ روپے کا جرمانہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

آپ سے درخواست ہے کہ آپ میڈیا کو کیے جانے والے جرمانے کی کم سے کم حد پچاس لاکھ اور زیادہ سے زیادہ دو سو کروڑ روپے مختص کردیں۔ اینکرز کے خلاف نیب اور دہشت گردی کی عدالتوں میں کیس چلانے کا قانون بنائیں تا کہ میڈیا مالکان اور اینکرز کسی کو بلیک میل کرنے، غلط خبرنشر کرنے اور ملک پاکستان کی امیج کو نقصان پہنچانے سے پہلے ایک ہزار مرتبہ سوچیں۔ اس کے علاوہ سی ایس ایس کے امتحانات میں میڈیا کی اہمیت کے حوالے سے کورس شامل کریں۔

بینکوں کے ٹریننگ کورسز میں میڈیا سٹڈیز پر بھی ٹریننگ دی جائے۔ تمام سرکاری دفاتر میں انفارمیشن کی اہمیت اور انفارمیشن کی درستگی کے حوالے سے ماہانہ سیمینار منعقد کروائے جائیں۔ طالب علموں کو باور کروایا جائے کہ غلط معلومات اور جھوٹی خبر دینے والا اور پھیلانے والا اتنا ہی بڑامجرم ہے جتنا بڑا مجرم ایک خود کش حملہ آور اور ملک سے غداری کرنیوالا ہوتا ہے۔ آپ سکول اور کالجز میں میڈیا سٹڈیز کے نام سے ایک مضمون لازمی قرار دے دیں۔

جہاں طالب علموں میں انفارمیشن کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ انھیں جھوٹی خبر کی نشاندہی کے طریقے کار سکھائے جائیں۔ انھیں بتایا جائے کہ پاکستان انفارمیشن کے حساس دور سے گزر رہا ہے۔ یہ پاکستانی میڈیا خصوصی طور پر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ارتقا کا عمل ہے اور ہمیں تحمل اور صبر کے ساتھ اس عمل میں سے گزر ناہے۔ میڈیا کا کورس ڈیزائن کرنے کے لیے تائیوان حکومت سے مدد لی جائے اس کے علاوہ انٹرنیشنل فیڈریشن آف لائبریری ایسوسی ایشنز اینڈ انسٹیٹیوشنز کی رہنمائی حاصل کی جائے ان کے پاس جھوٹی خبروں کو روکنے کے لیے اور پاکستانی میٖڈیا کو بین الاقوامی صحافتی اصولوں پر چلانے کے لیے بنایا ڈیزائین موجود ہے۔ آپ بس بسم اللہ کریں۔ اگر آپ آج بھی یہ نہ کر سکے تو پھر کبھی بھی ایسا نہیں کر سکیں گے اور میڈیا آپ کی مٹھی سے ریت کے ذروں کی طرح سرک جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).