گلالئی اسماعیل: یہ خاندان آپ ہی کو مبارک ہو


گلالئی اسماعیل بھا گ گئی اور اس وقت نیویارک میں اپنی بہن کے پاس رہائش پزیر ہے۔ پہنچی وہی پہ خاک جہاں کا ”خمیر“ تھا۔
ضیاء الدین یوسفزئی (ملالہ کے والد ) سے حسین حقانی تک ایک طویل سلسلہ ہے جو غنیم کے درو بام پر ایستادہ اپنی دھرتی کو طعنہ زنی میں شب و روز ایک کیے ہوئے ہیں۔ (کیا مصنف ان طالبان کو کوئی الزام نہیں دیں گے جن کی وجہ سے ملالہ مرتے مرتے بچی اور اب بھی پاکستان واپس آنے پر اس کی جان کو خطرہ ہے؟ مدیر)

ان لبرلز کا مسئلہ یہ نہیں کہ اپنے اختلاف سے ملک کو صحیح سمت میں گامزن کرنے کی کوشش کریں۔ بلکہ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ اپنے ”اختلاف“ کو اپنے لئے کیش کیسے کریں اور یہ لوگ اس ہنر میں بہت طاق بھی ہیں۔ تبھی تو لندن سے نیویارک اور جرمنی سے سوئٹزر لینڈ تک یہ ”پناہ گزین“ اپنی اپنی لائف اور لائف سٹائل سنوار چکے۔

اگلے دن نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے گلالئی اسماعیل نے کہا کہ میں یہ نہیں بتا سکتی کہ میں پاکستان سے کیسے نکلیں؟ تاہم اسی انٹرویو میں موصوفہ نے انکشاف کیا کہ میں کسی ہوائی اڈے سے نہیں اُڑی۔ گویا وہ ایک سماجی کارکن سے زیادہ ایک کمانڈو بھی ہے۔ کیونکہ مشرقی اور مغربی بارڈرز پر تو حساس صورتحال کے پیش نظر فوج بہت الرٹ ہوتی ہے حتٰی کہ کیمرے ایک مچھر تک کو بھی کیپچر کر دیتے ہیں۔

طرفہ تماشا یہ کہ بی بی سی سے وابستہ عزیز دوست رفعت اورکزئی نے گلالئی کے والد اسماعیل سے جب یہ سوال پوچھا کہ آپ کی بیٹی گلالئی اسماعیل امریکہ کیسے پہنچی تو موصوف نے فرمایا کہ گلالئی سے ابھی میری بات نہیں ہوئی اس لئے کچھ نہیں کہہ سکتا، یعنی جوان بیٹی ایک عرصے سے غائب تھی یہاں تک کہ وہ امریکہ بھی پہنچ گئی لیکن والدین سے رابطہ تک نہیں ہوا۔

ویسے آج کل رابطہ کون سا مشکل ہے لیکن چلو کوئی تو اس ”مظلوم و مجبور“ باپ پروفیسر اسماعیل کو ایک سیل فون تو دلا دے۔ موصوف نے حسب منصوبہ اپنا دکھڑا بھی سنایا کہ اسلام آباد میں قتل ہونے والی معصوم بچی فرشتہ کے واقعے پر احتجاج اور پی ٹی ایم کے جلسے میں شرکت کے بعد ہمارے پورے خاندان کی مشکلات اور مصائب میں بہت زیادہ اضافہ ہواہے اس لئے گلالئی اسماعیل یہاں سے بھاگ نکلیں۔

اب تلخ لیکن مبنی پر حقائق سوال سے باز تو آنا نہیں اس لئے پوچھنا ہے کہ اگر پی ٹی ایم جلسے کے بعد آپ لوگوں کی مشکلات بڑھیں تو کیا پروفیسر اسماعیل اس کی بیٹی گلالئی اسماعیل اور اس کے خاندان کی مشکلات پی ٹی ایم کے لیڈروں علی وزیر اور محسن داوڑ سے زیادہ تھیں؟

علی وزیر اور محسن داوڑ تو پراسرار طریقے سے رات کی تاریکی میں کہیں نہیں بھاگے بلکہ ایک دلیر قید کاٹ آئے وہ بھی سلگتی ہوئی گرمی کے موسم میں۔

کیا پروفیسر اسماعیل اور اس کے خاندان کی مشکلات شریف فیملی سے زیادہ ہیں کیونکہ وہ تو کہیں نہیں بھاگے بلکہ بھاگنے کی بجائے واپس آکر بھادری اور ڈٹنے کی ایک تاریخ رقم کر گئے اور وہاں مریم نواز بھی ایک خاتون ہے آور آپ کی بیٹی گلالئی اسماعیل بھی ایک خاتون تھی ایک تو مردانہ وار جیلیں کاٹ رہی ہیں اور دوسری بھاگ گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ ناک کٹواکے رکھ دی وہ بھی پختون ہوتے ہوئے۔

پروفیسر اسماعیل صاحب کیا آپ کی بیٹی کی مشکلات آصف زرداری سے زیادہ تھیں۔

اس بحث میں جائے بغیر کہ زرداری صاحب کرپٹ ہیں یا شفاف کہ یہ فیصلہ کرنا عدالتوں کا کام ہے لیکن وہ بھاگا تو کم از کم نہیں بلکہ روز لاٹھی ٹپکتے ہوئے اپنی بہن فریال تالپور کے کندھے پر ہاتھ رکھے عدالتوں کی برآمدوں میں پیشیوں کا انتظار کر تا نظر آتا ہے۔

کیا رانا ثناء اللہ سے آپ لوگوں کی مشکلات زیادہ تھیں۔
رانا ثناءاللہ کی کوئی نرینہ اولاد بھی نہیں اس لئے اکیلی بیوی صبح فائل لے کے عدالتوں کا رُخ کرتی ہے اور سارا دن مشکلات سے ٹکراتی رہتی ہے۔

کیا شاہد خاقان عباسی، سعد رفیق، خورشید شاہ اور دوسرے سینکڑوں بلکہ ہزاروں سیاسی کارکنوں کے علاوہ اہل قلم میں۔ اُستاد محترم عطا الحق قاسمی، مطیع اللہ جان، ابصار عالم، عمر چیمہ، وحید مراد، عاصمہ شیرازی، عمار مسعود، احمد نورانی، مبشر زیدی اور اس خاکسار سمیت بہت سے صحافیوں کی مشکلات کیا کم ہیں؟ ظاھر ہے ایسا ہرگز نہیں۔

لیکن فرق یہ ہے کہ یہ سب اس دھرتی کی وہ نیک خصلت اولادیں ہیں جن سے اپنی دھرتی ماں کا دکھ دیکھا نہیں جاتا اور غلطیوں سے اختلاف کرتے ہیں۔ لیکن نیک نیتی کے ساتھ کسی مکروہ ایجنڈے کی خاطر نہیں اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ دھرتی کو ماں سمجھنے والی ان اولادوں میں سے ایک بھی بھاگا نہیں بلکہ اصلاح احوال کا اپنا اپنا علم اٹھائے میدان میں موجود ہیں۔ اپنے اپنے اختلاف کے ساتھ اپنی اپنی نیک نیتی کے ساتھ۔ ناسازگار موسموں اور اذیتوں بھرے مشکلات کے دنوں میں۔

تازہ ترین یہ کہ نیویارک ٹائمز کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر چارلز شومر کا کہنا ہے کہ میں گلالئی اسماعیل کی پناہ کے درخواست کی بھرپور حمایت کرونگا۔ کیونکہ پاکستان میں اس کی جان کو خطرہ ہے۔

شکریہ سینٹر چارلز شومر بلکہ ایک احسان یہ بھی کریں کہ اس کے والد پروفیسر اسماعیل کو بھی لے جائیں کیونکہ اسی دن کے لئے تو اس بے چارے نے بہت ”محنت“ کی ہے بلکہ گلالئی کو پار کرانے کے بعد اب بہت چیخ رہے ہیں کہ ہمارے ”باقی خاندان“ کو بھی ”جان کا خطرہ“ ہے۔ سو اس باقی خاندان کو بھی بلا ہی لیں اور یہ خاندان آپ ہی کو مبارک ہو۔

رہی ہماری دھرتی ماں تو اس پر قربان ہونے والے میدان کارزار ہی میں دکھائی دیتے ہیں بھاگنے والے راستوں یا مغرب کے عیش کدوں میں نہیں کیونکہ یہ دھرتی ماں بد نصیب بہت سہی لیکن اس کی گود ابھی اُجڑی نہیں۔
اس دھرتی ماں کے جی دار بیٹے بھی بہت ہیں اور بازو بھی بہت۔
(نوٹ: ادارہ ”ہم سب“ اس مضمون کے بعض مندرجات سے متفق نہیں ہے لیکن لبرل اقدار کے تحت مصنف کے آزادی اظہار کے حق کا احترام کرتے ہوئے اسے شائع کر رہا ہے: مدیر)

اسی بارے میں: گلالئی اسماعیل پر حماد حسن صاحب کا مضمون

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).