گلالئی اسماعیل پر حماد حسن صاحب کا مضمون


آج ہم سب پر حماد حسن صاحب کا مضمون ’گلالئی اسماعیل: یہ خاندان آپ ہی کو مبارک ہو‘ ایک ادارتی اختلافی نوٹ کے ساتھ شائع کیا گیا۔ اس کے بیشتر مندرجات سے ہم اختلاف کرتے ہیں۔ لیکن ادارہ ’ہم سب‘ لبرل اقدار کا داعی ہے۔ ان اقدار میں سب سے زیادہ اہم فری سپیچ ہے۔ ایولین بیٹریس ہال کا والٹیئر سے منسوب مشہور قول ہے ’جو تم کہتے ہو میں اس سے اختلاف رکھتا ہوں، لیکن میں تمہارے یہ کہنے کے حق کے دفاع کے لئے اپنی جان بھی دے دوں گا‘ ۔ اسی اصول کے تحت ادارہ ’ہم سب‘ کسی بھی تحریر کو شائع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

قدغن صرف یہ ہے کہ اس میں کسی فرد یا طبقے کے خلاف ننگی نفرت کا اظہار نہ کیا گیا ہو، اختلاف یا اتفاق مہذب الفاظ میں کیا گیا ہو، کسی طبقے کے مذہبی عقائد پر حملہ نہ کیا گیا ہو اور ریاست پاکستان کی سالمیت کے خلاف بات نہ کی گئی ہو۔ اس سلسلے میں پاکستان کے دستور کی شق 19 کو فالو کیا جاتا ہے جو آزادی اظہار کا حق کچھ قدغنیں لگا کر دیتی ہے۔

ہمیں لبرل ہونے پر ندامت نہیں، فخر ہے۔ عاصمہ جہانگیر پاکستان کی سب سے بڑی لبرل تھیں، پاکستان میں رہیں اور پاکستان میں مریں۔ تین آمروں کا مقابلہ کیا، بلاسفیمی کا قانون انہیں چپ کروانے کے لئے بنایا گیا، مگر لبرل نظریات میں ایسی راسخ تھیں کہ جب دہشت گردی کے الزام میں پکڑے گئے خطرناک لوگوں کے حقوق کی آواز اٹھانے پر کوئی راضی نہیں تھا تو یہ عاصمہ جہانگیر تھیں جنہوں نے یہ بیڑا اٹھایا اور معترضین کو کہا کہ کسی شخص کو بھی اس کے قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، فری ٹرائل ہر شخص کا حق ہے۔ یہ لبرل ہی ہیں جو دوست دشمن کی تمیز کیے بغیر سب کے انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرتے ہیں۔

حماد حسن صاحب کے مضمون میں جو نکات اٹھائے گئے ہیں وہ بعض مقامات پر خود اپنی نفی کرتے ہیں، اور گلالئی اسماعیل کے بارے میں ان کے جو اعتراضات ہیں ان میں سے بیشتر کا جواب وہ نیویارک ٹائمز کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں دے چکی ہیں۔

حماد حسن صاحب لکھتے ہیں کہ

”ضیاء الدین یوسفزئی (ملالہ کے والد ) سے حسین حقانی تک ایک طویل سلسلہ ہے جو غنیم کے درو بام پر ایستادہ اپنی دھرتی کو طعنہ زنی میں شب و روز ایک کیے ہوئے ہیں۔ ان لبرلز کا مسئلہ یہ نہیں کہ اپنے اختلاف سے ملک کو صحیح سمت میں گامزن کرنے کی کوشش کریں۔ بلکہ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ اپنے ’اختلاف‘ کو اپنے لئے کیش کیسے کریں اور یہ لوگ اس ہنر میں بہت طاق بھی ہیں۔ تبھی تو لندن سے نیویارک اور جرمنی سے سوئٹزر لینڈ تک یہ ’پناہ گزین‘ اپنی اپنی لائف اور لائف سٹائل سنوار چکے۔ “

یہ لبرل ہی ہیں جو حماد حسن صاحب کا مضمون شائع کر رہے ہیں۔ اگر تنگ نظر قدامت پسند ہوتے تو فری سپیچ پر پابندی لگاتے اور یہ مضمون شائع نہ ہوتا۔ ان لبرلوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ انسانی حقوق پر یقین رکھتے ہیں اور اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی نہیں سمجھتے۔

سوال یہ ہے کہ کیا متذکرہ بالا افراد کی جان کو اپنے ملک میں خطرہ نہیں تھا؟ ملالہ کے تو سر میں گولی ماری گئی تھی اور وہ معجزانہ انداز میں بچ گئی۔ اب بھی اس کے لئے کھلی دھمکی ہے کہ وہ واپس آئی تو اسے زندہ نہیں چھوڑا جائے گا۔

سوال یہ نہیں ہے کہ یہ لوگ پاکستان سے باہر کیوں گئے۔ سوال یہ ہے کہ یہ افراد پاکستان میں رہتے ہوئے اپنی بات کسی خوف اور خطرے کے بغیر کیوں نہیں کر سکتے؟ قومیں مکالمے سے زندہ رہتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری قوم میں مکالمے سے دشمنی ہر طبقہ فکر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ مولوی کوشش کرتا ہے کہ لبرل کا گلا گھونٹ دیا جائے اور خود کو لبرل قرار دینے والا لبرل ازم کے سب سے اہم اصول فری سپیچ کو نظرانداز کرتے ہوئے مولوی کی بات پر پابندی لگاتا ہے۔ اگر ان افراد کو اپنے جان مال کا تحفظ حاصل ہوتا تو یہ پاکستان میں رہنے کو ترجیح دیتے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان میں رہتے ہوئے یہ سب پاکستانی اپنی بات کہتے اور ہماری بات سنتے اور کسی کو کسی سے خطرہ نہ ہوتا۔

حماد حسن صاحب مزید لکھتے ہیں کہ

”اگلے دن نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے گلالئی اسماعیل نے کہا کہ میں یہ نہیں بتا سکتی کہ میں پاکستان سے کیسے نکلیں؟ تاہم اسی انٹرویو میں موصوفہ نے انکشاف کیا کہ میں کسی ہوائی اڈے سے نہیں اُڑی۔ گویا وہ ایک سماجی کارکن سے زیادہ ایک کمانڈو بھی ہے۔ کیونکہ مشرقی اور مغربی بارڈرز پر تو حساس صورتحال کے پیش نظر فوج بہت الرٹ ہوتی ہے حتٰی کہ کیمرے ایک مچھر تک کو بھی کیپچر کر دیتے ہیں۔ “

اگر حماد حسن صاحب نیویارک ٹائمز میں انٹرویو بغور پڑھتے تو اس میں دو جملے ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواتے۔

”پاکستانی سیکیورٹی آفیشلز نے بتایا کہ انہیں کچھ عرصے سے شبہ تھا کہ مس اسماعیل ان کے ہاتھوں سے پھسل گئی ہیں“۔

”ہمارے اہلکار بھرپور طریقے سے اس کے پیچھے تھے لیکن اس کا سراغ نہیں ملا۔ وہ ایک ایسی جگہ چلی گئی ہے جو ہماری پہنچ سے دور ہے“، ایک پاکستانی انٹیلجنس ایجنٹ نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا۔

ہر روز بے تحاشا لوگوں کو ہیومن سمگلر پاکستان سے یورپ لے جاتے ہیں۔ وہ ان افراد کو ہوائی اڈوں سے اڑا کر نہیں لے جاتے بلکہ زمینی راستوں پر پاکستان اور ہمسایہ ممالک کے محافظوں سے چھپا کر لے جاتے ہیں۔ یہ لوگ بڑے بڑے کنٹینروں میں چھپا کر لے جائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سرحدوں پر نگرانی ایسی نہیں کہ مچھر بھی نہ بچ کر نکل سکے۔ یہاں تو سالم کنٹینر بھی نکل جاتے ہیں۔ اور یہ دیہاتی نوجوان جو انسانی سمگلروں کے ذریعے سرحد پار کرتے ہیں، کمانڈو نہیں ہوتے۔

حماد حسن مزید لکھتے ہیں کہ

”طرفہ تماشا یہ کہ بی بی سی سے وابستہ عزیز دوست رفعت اورکزئی نے گلالئی کے والد اسماعیل سے جب یہ سوال پوچھا کہ آپ کی بیٹی گلالئی اسماعیل امریکہ کیسے پہنچی تو موصوف نے فرمایا کہ گلالئی سے ابھی میری بات نہیں ہوئی اس لئے کچھ نہیں کہہ سکتا، یعنی جوان بیٹی ایک عرصے سے غائب تھی یہاں تک کہ وہ امریکہ بھی پہنچ گئی لیکن والدین سے رابطہ تک نہیں ہوا۔ ویسے آج کل رابطہ کون سا مشکل ہے لیکن چلو کوئی تو اس ’مظلوم و مجبور‘ باپ پروفیسر اسماعیل کو ایک سیل فون تو دلا دے۔ “

یعنی ان کی رائے یہ ہے کہ جب کوئی شخص انڈر گراؤنڈ ہوتا ہے تو وہ اپنے گھر والوں سے مسلسل رابطے میں رہتا ہے۔ کیا حماد صاحب کو بطور خاص جنرل ضیا کے دور میں جمہوریت پسندوں کے انڈر گراؤنڈ رہنے کا علم نہیں ہے؟ وہ کیسے اپنے عزیز اقارب سے تعلق توڑتے تھے۔ چند گنے چنے لوگ ہی ان سے رابطے میں ہوا کرتے تھے۔ انڈر گراؤنڈ ہونے کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ آپ روابط توڑ کر گم ہو جائیں۔ آج کل کے موبائل ٹریسنگ کے دور میں یہ ویسے بھی لازم ہو گیا ہے۔ یہ موبائل فون ہی پکڑواتے ہیں۔ اور ایسے خود سے غائب ہونے والے جوان ہی ہوتے ہیں، بچے نہیں ہوتے۔

جہاں تک یہ رائے ہے کہ امریکہ جانے کی خاطر گلالئی اسماعیل نے یہ سب کچھ کیا ہے، تو نیویارک ٹائمز کے انٹرویو میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ گلالئی اسماعیل کے پاسپورٹ پر پہلے ہی پانچ برس کا امریکی ویزا لگا ہوا تھا۔ انہیں مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ روٹین میں امریکہ جاتی تھیں اور ان کے ملاقاتیوں میں سابق خاتون اول مشل اوبامہ تک شامل تھیں۔

اپنے انڈر گراؤنڈ ہونے کے دور کے بارے میں گلالئی اسماعیل بتاتی ہیں کہ انہیں ایک دوست کی طرف سے اطلاع ملی کہ انہیں گرفتار کیا جانے والا ہے۔ وہ اپنا موبائل فون چھوڑ کر خالی ہاتھ گھر سے فوراً نکلیں۔ اگلے تین ماہ وہ مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی رہیں، کبھی ایک شہر میں تو کبھی دوسرے میں۔ کبھی فون یا کمپیوٹر استعمال نہیں کیا۔ پناہ گاہ سے کبھی باہر نکلیں تو نقاب کر کے۔ پوشیدہ رہنے کے لئے انہوں نے صرف دوستوں کے ایک چھوٹے سے گروہ سے رابطہ قائم رکھا۔

حماد حسن لکھتے ہیں کہ

”موصوف نے حسب منصوبہ اپنا دکھڑا بھی سنایا کہ اسلام آباد میں قتل ہونے والی معصوم بچی فرشتہ کے واقعے پر احتجاج اور پی ٹی ایم کے جلسے میں شرکت کے بعد ہمارے پورے خاندان کی مشکلات اور مصائب میں بہت زیادہ اضافہ ہواہے اس لئے گلالئی اسماعیل یہاں سے بھاگ نکلیں۔ “

یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس احتجاج کے دوران گلالئی اسماعیل نے کچھ سخت اور نامناسب باتیں کی تھیں جن کے نتیجے میں ان پر مقدمات قائم کیے گئے اور ان کی تلاش شروع کی گئی۔ گلالئی اسماعیل کو یہ یقین ہو گیا کہ ان کی زندگی کو خطرہ ہے تو پھر ہی وہ روپوش ہو کر ملک سے فرار ہوئیں۔ تھانہ شہزاد ٹاؤن میں درج ہونے والے اس مقدمے میں گلالئی اسماعیل پر الزام ہے کہ اُنھوں نے ’اس واقعے کی آڑ میں لوگوں کو حکومت وقت اور فوج کے خلاف بھڑکایا ہے‘ ۔ اس مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں۔ پروفیسر اسماعیل اور ان کی اہلیہ پر ’دہشت گردوں کی امداد‘ کرنے کا مقدمہ پہلے ہی چل رہا ہے۔

جہاں تک حماد حسن کے ان سوالات کا تعلق ہے کہ گلالئی اسماعیل اور اس کے خاندان کی مشکلات پی ٹی ایم کے لیڈروں علی وزیر اور محسن داوڑ سے زیادہ تھیں، یا شریف خاندان سے جو جیل میں پڑا ہے، یا آصف زرداری اور رانا ثنا اللہ وغیرہ سے، ”وہ تو ملک سے نہیں بھاگے“۔ ”لیکن فرق یہ ہے کہ یہ سب اس دھرتی کی وہ نیک خصلت اولادیں ہیں جن سے اپنی دھرتی ماں کا دکھ دیکھا نہیں جاتا اور غلطیوں سے اختلاف کرتے ہیں۔ لیکن نیک نیتی کے ساتھ کسی مکروہ ایجنڈے کی خاطر نہیں اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ دھرتی کو ماں سمجھنے والی ان اولادوں میں سے ایک بھی بھاگا نہیں بلکہ اصلاح احوال کا اپنا اپنا علم اٹھائے میدان میں موجود ہیں۔ “

ہم مذہبی حوالے سے بات نہِیں کرتے بلکہ اس خطے کی چند مثالیں دیکھتے ہیں۔ جہاں تک ان افراد کا تعلق ہے تو کیا شریف خاندان نے جدہ کی جلاوطنی قبول نہیں کی تھی؟ کیا اپنی جان کو خطرے میں دیکھ کر بے نظیر کئی برس تک جلاوطن نہیں رہی تھیں اور جب وہ 2007 میں واپس آئیں تو اس وقت وہ وطن کی خاطر جان تک دینے کے ارادے سے ہی آئی تھیں، ورنہ پرویز مشرف کی دھمکیوں، سیکیورٹی واپس لینے، کارساز کے دھماکے اور لیاقت باغ میں خطرے کے باوجود اس طرح اپنی جان ہتھیلی پر رکھے نہ پھرتیں۔ کیا میاں نواز شریف اس وقت خراب صحت کے باوجود بظاہر ایک ’طبی خودکشی‘ کی طرف مائل دکھائی نہیں دیتے؟ کیا فیض احمد فیض اور حسین شہید سہروردی جیسے بڑے ناموں نے خطرے کے باعث جلاوطنی اختیار نہیں کی؟

کیا یہ سب بڑے نام دھرتی کو ماں نہیں سمجھتے تھے؟ کیا ان کے نیک یا بدخصلت ہونے کا فیصلہ وہ لوگ کریں گے جنہوں نے اپنے وطن اور قوم کی خاطر ایسی کوئی تکلیف نہیں سہی؟ کیا کسی کو اختیار ہے کہ خود پارسا بن کر دوسرے کے بارے میں فیصلہ کرے کہ آیا وہ نیک خصلت ہے یا بدخصلت؟

تمام شہریوں کو اپنے وطن میں محفوظ ہونا چاہیے۔ یہاں ان کو وہ تمام حقوق ملنے چاہئیں جن کا ان سے آئین میں وعدہ کیا گیا ہے۔ انہیں کوئی بات کہنے پر جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور نہیں ہونا چاہیے۔ دہشت گردی کے مقدمات بم دھماکے کرنے والوں پر درج ہونے چاہئیں، تقریر یا احتجاج کرنے والوں پر نہیں۔ اور ان نا انصافیوں پر احتجاج کرنے والے ”بدخصلت“ نہیں ہوتے، ان کے دم سے ہی دوسروں کی آزادی قائم رہتی ہے۔ کبھی بدخصلت قرار دیے جانے والے جالب اور فیض تو اب اس وقت کے ”خوش خصلتوں“ کے ہیرو قرار پائے ہیں۔

اسی بارے میں: گلالئی اسماعیل: یہ خاندان آپ ہی کو مبارک ہو

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar