جنرل صاحب صلح کرلیں؟


سیں ظہور دھریجہ کا آج کی اچانک ملاقات میں بھی یہی خیال تھا کہ میرے کالموں میں بہاولپور صوبہ پر ایک مستقل موقف اور سرائیکی صوبہ پر اختلاف رائے کی وجہ سے یہ معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ میں نے قہقہ لگایا کہ حضور میرے کالموں کی وجہ سے، اگر ایسا ہورہا ہے تو بڑی بات ہے لیکن میں سمجھتا ہوں، ایسا نہیں ہے، جی بالکل ایسا نہیں ہے۔ اس کی وجوہات کچھ اور ہوں گی۔ اور پھر میرے خیال میں سرائیکی صوبہ کا مقدمہ اتنا کمزور نہیں ہے کہ میرے جیسے نیازمند کالم نگار کے اختلاف رائے کی وجہ سے الجھ جائے اور ہرسال بنتے بنتے رہ جائے۔

ظہور دھریجہ کی اپنی رائے تھی، جس کا احترام ہے لیکن ان کی رائے کو لفظ با لفظ قبول کرنے کی سکت مجھ جیسے عاجز بندہ میں نہیں ہے۔ سرائیکی صوبہ کے حوالے سے سنجیدہ گفتگو کے دوران میں ظہور دھریجہ کو ایک لطیفہ نہیں سنا سکا لیکن آپ کو سنا دیتا ہوں تاکہ سند رہے۔ لطیفہ یوں ہے کہ ایک بار ایسا ہوا کہ ایک ملک کی فوج پر بدترین حالات آگئے ْ حملہ آور ملک کی فوجیں آگے بڑھ رہی تھیں۔ یوں فوج کے جنرل صاحب کے ذہن میں پتہ نہیں کیا خیال آیا کہ اس نے حکم دیا کہ کل فوج میں جو بینڈ بجانے والے میراثی ہیں؟

ان کو بارڈر پر لایا جائے تاکہ وہ بھی جنگ میں شامل ہوں اور دشمن کی فوجوں کو پسپا کرنے میں اپنا کردار اداکریں۔ بس جیسے ہی جنرل کا حکم میراثیوں تک پہنچا؟ تھرتھلی مچ گی ْ میراثی ٹولیوں میں بٹ گے، کسر پھسر شروع ہوگی کہ اب تو برا وقت ہم تک پہنچ گیا ہے؟ علی الصبح جنرل صاحب کے حکم کے مطابق محاذ پر پہنچنا ہے، ٹرک تیار کھڑے ہیں، بندوقیں ایشو کی جارہی ہیں، اب اللہ خیر ہی کرے۔ میراثیوں نے ایک دوسرے کو مسینی شکل بناکر کہاکہ چودھریوں تیار ہوجاو، اب بینڈ نہیں بجانا ہے بلکہ بندوق پکڑنی، وہ بھی اصلی والی اور ٹینکوں پر چڑھ دشمن پر گولے داغنے ہیں، دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنی ہیں اور پھر آنکھوں کو سرخ کرنا ہے تاکہ خوف کی فضا قائم ہوسکے۔

ایسا بھی ہوا کہ جنرل صاحب کے حکم بعد کی صورتحال میں کمزور دل میراثی رو بھی پڑے کہ جنرل صاحب نے مشکل امتحان میں ڈال دیاہے۔ ہم بھلا فوج میں محاذ پر جنگ لڑنے تھوڑی آئے تھے، ہم تو ڈھول، بینڈ بجا کر خوشیاں باٹننے والے لوگ ہیں۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، معصوم بیویاں ہیں، ان کا کیا بنے گا؟ اگر ہم بارڈر پر اللہ نہ کرے، ایسے ویسے ہوگئے تو مطلب کہانیاں ہی کہانیاں تھیں جو کہ رات گزرنے کے ساتھ بڑھتی جارہی تھیں۔

بزرگ میراثی بھی اس صورتحال سے نوجوانوں کو نکالنے کے لئے سرجوڑ کر بیٹھے تھے۔ فکر تو ان کو بھی تھی کہ حالات بگڑ گئے ہیں، محاذ پر گئے نہیں تھے لیکن کہانیاں تو سنی تھیں۔ اسی دوران ایک پرانے میراثی نے ساتھ پڑے ڈھول پر ہاتھ مارا اور سب میراثیوں کو با آواز متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک نسخہ میرے پاس آگیا ہے۔ سب ایک دم اس کی طرف متوجہ ہوئے کہ جان سکیں کہ اتنی دیر سے مصیبت میں گرفتار ہیں، دیکھیں اب بڑے استاد جنرل کے حکم سے جان چھڑانے کے لئے کون سی دور کی کوڑی لائے ہیں؟

بڑے میراثی نے کہا کہ جنرل صاحب کو احترام، پورے پروٹوکول اور بینڈ باجوں کی سریلی آواز کے ساتھ یہ عرضی گزاریں کہ حضور اگر حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ بات فوج کے میراثیوں تک پہنچ گئی ہے تو اس جنگ کو یہیں پر روک کر صلح کرلیں۔ اس تجویز پر سب کے چہروں پر رونق آگئی، سب نے اجتماعی قہقہ لگایا، ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔ اور خوشی میں بینڈ باجوں کی محفل سج گئی، کچھ جذباتی نوجوان جھومر کے لئے میدان میں آگئے مطلب پریشانی کے عالم میں، ایک خوشی کا ماحول بن گیا۔

یہ تو وہ لطیفہ تھا جوکہ ظہور دھریجہ کو نہیں سنا سکاتھا، ہماری ظہور دھریجہ سمیت سرائیکی صوبہ مطلب جنوبی پنجاب کے حامی لیڈران کرام، حامیوں سے گزارش ہے کہ اگر سرائیکی صوبہ میرے کالموں میں اختلاف کی وجہ سے نہیں بن رہا ہے تو جانے دیں، بڑے خان کی طرح فیصلہ کریں۔ ہیتھار پھینک دیں اور لہورسے صلح کرلیں۔ ویسے بھی لہور اور ملتان کا فاصلہ اب فیصل آباد موٹروے کی تکمیل کے بعد سوا تین گھنٹہ کا رہ گیا ہے۔ میں نے ظہور دھریجہ سے بات چیت کے دوران عرض کیا کہ ملتان سے نکلیں ْ تھل ً خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ اور چینوٹ اضلاع جیسے اہم علاقہ پر مشتمل ہے، وہ آپ کا منتظر ہے مطلب سرائیکی صوبہ کے حامیوں کا منتظر ہے، سرائیکی قوم پرست تھل کے بارے میں نہ کوئی بات کررہے ہیں؟

اور نہ ہی ملتان کی سیاسی قیادت تھل کی جنگل جیسی صورتحال پر آواز اٹھارہی ہے۔ ادھر تو شاہ محمود قریشی نے جو پنجاب کی تقسیم کی ہے، اس سے یوں لگ رہا ہے کہ پنجاب نہیں تھل تقسیم ہو رہا ہے۔ تھل کے حوالے سے جنگل کا لفظ سوچ سمجھ کر کہاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تھل میں ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر، ہائی کورٹ بنیچ اور ایئر پورٹ سے لے کر میڈیکل کالج، ٹیچنگ ہسپتال، پاکستان ٹیلی ویثرن اسٹیشن، ریڈیو پاکستان اسٹیشن؟ وویمن یونیورسٹی؟

ٹیکنالوجی کالج، ایجوکیش یونیورسٹی، ہاکی اسٹیڈیم، ڈینٹل کالج، زرعی یونیورسٹی، انجیرنگ یونیورسٹی، کرکٹ اسٹیڈیم، موٹروے، ایکسپریس ہای وے، وویمن ٹیکنالوجی کالج، انڈسٹری، سمیت کچھ بھی تو نہیں ہے۔ مان لیا لہور نے ہمارے حقوق غضب کیے ہوئے ہیں لیکن آپ جیسے سرائیکی دانشوروں کو تھل کے سلگتے ایشوز پر بات تو کرنی چاہیے تھی۔ کیا سرائیکی صوبہ جس کو اب آپ جنوبی پنجاب بھی تسلیم کرچکے ہیں، اس کا مطلب ملتان ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو جان چھوٹی اور اگر ایسا ہے تو دھریجہ سیں، پھر اس خاموشی کو توڑنا ہوگا؟

ادھر سچی بات یہ ہے کہ اب تو ملتان کے پاس وہ سب کچھ ہے، جوکہ لہور کے پاس ہے صرف سیکرٹریٹ اور صوبہ کا اعلان باقی ہے جبکہ تھل کے عوام تو لہور چھوڑیں ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان سے ترقی اور خوشحالی میں سو سال پیچھے ہے۔ دھریجہ سیں کو پنجابی آباد کاروں سے ایشو تھا؟ ان کا اپنا موقف ہے، احترام ہے لیکن میں نے عرض کیا کہ بلوچ بھی تو ہیں جو سال میں ایک بار اجرک پہن کر سرائیکی ہوجاتے اور پھر بلوچی پگ پہن کر بلوچ ہوجاتے ہیں، یہ جیسے معروف صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ کھلا تضاد نہیں ہے؟

یہ پہلی قوم ہے جوکہ ایک وقت میں سرائیکی بھی ہے اور بلوچ بھی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنے آپ کو بلوچ لکھ اور کہلوا سکتاہوں؟ ادھر اب تونسہ شریف کا بلوچ عثمان بزدار پنجاب کا وزیراعلی ہے لیکن بلوچ وزیر اعلی نے بھی الٹی گنتی یوں شروع کی ہوئی ہے کہ ڈیرہ غازی خان کے علاوہ اس کو کچھ نظر نہیں آ رہا ہے، جوترقیاتی فنڈز جارہے ہیں، وہ ڈیرہ غازی خان میں جارہے ہیں۔ ادھر ڈیرہ غازی خان سے بھی سب اچھا کی اطلاعات یوں نہیں آرہی ہیں کہ کیونکہ ایک سرکاری افسر احمد علی بخاری نے ویڈیو پیغام جوکہ وزیراعظم پاکستان سمیت دیگر کے نام ہے، اس میں بخاری نے الزام عائد کیاہے کہ ڈیرہ غازی خان میں کمیشن کا سلسلہ عروج پر ہے، وزیراعلی پنجاب کا کمشین ٹینڈر شروع ہوتے ساتھ ہی علیحدہ کروالیا جاتاہے، ادھر بخاری نے وزیراعلی عثمان بزدار کے بھائیوں کے نام لے کر بھی الزامات عائد کیے ہیں، ساتھ احمد علی نے یہ بھی کہا ہے مجھے ایک انکوائری سے علیحدہ کیاگیا ہے جوکہ اسی کمیشن کے سلسلہ میں تھی۔

احمد علی نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ میرا ایک ماہ میں تین بار تبادلہ کیاگیا ہے، آخری تبادلہ لیہ کیاگیا ہے۔ بخاری کے ان الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیے؟ اگر الزام غلط ہیں تب احمد علی بخاری اور اگر درست ہیں تو پھر وزیراعلی اور اس کے بھائیوں کے حوالے سے قانون کو اپنا راستہ بنانا چاہیے۔ تھل کی جیسے ہم بات کررہے تھے اس کو وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کو اس قابل نہیں سمجھا گیا ہے کہ اس کے سات اضلاع خوشاب، میانیوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ اور چینوٹ میں ایک بھی ایسا ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیاگیا ہے، جس کا یہاں پر ذکر کیاجائے۔

حد تو یہ ہوگئی ہے وزیراعظم عمران خان، وزیرریلوے شیخ رشید کی دعوت پر میانوالی گئے، وہاں وزیراعلی عثمان بھی موجود تھے، شیخ رشید نے تقریر کے لئے بلایا تو وزیراعلی بزدار نے وزیراعظم کے آبائی حلقہ میانوالی کے لئے پنجاب حکومت کی طرف سے کوئی بڑا منصوبہ کا اعلان کرنے کی بجائے ادھر، ادھر کی کہانیاں سناکر تقریر کا وقت پاس کیا اور یوں تھل ویسے ہی رہا جیسا کہ اکہتر سال سے چلا آرہا ہے مطلب جنگل اور جنگل جیسے حالات تھل کی قسمت میں لکھ دیے گئے ہیں، قیام پاکستان سے لے کر آج تک حکومتوں کی طرف تسلسل کے ساتھ تھل کو جھنڈی کرائی جارہی ہے، اب تو اس بات میں کوئی شک نہیں رہا ہے کہ عثمان بزدار نے ڈیرہ غازی خان تک اپنی وزرات اعلی کو محدود کرلیا ہے اور احمد علی بخاری جیسے سرکاری افسر کی طرف سے کمیشن کے الزامات بہت سارے سوالات کو جنم دے رہے ہیں؟

آخر پر ظہور دھریجہ نے دو کتابوں، سرائیکی صوبہ، پاکستان کی ضرورت، خواجہ فرید اور روہی کا تحفہ دیا؟ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ جاتے ہوے ظہور دھریجہ ملنے کا وعدہ کر گئے لیکن دوبارہ ملاقات نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود امید ہے کہ سرائیکی قوم پرست اور لیڈر شپ ملتان سے نکل کرتھل جوکہ پنجاب کا اہم علاقہ ہے، اس کی محرومیوں کے بارے میں آواز اٹھائے گی ناکہ ملتان تک محدود رہے گی۔ یادرہے تھل کے لوگ جیتے جاگتے انسان ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ اکہتر سال سے کیا کھیل کھیلا گیاہے؟ اب ان کو ریوڑ سمجھ کر نہ پیچھے لگایا جاسکتا ہے اور نہ ہی چونسی دے کر بہلایا جاسکتا ہے۔ اب تھلوچیوں کا حق ان کو دینے پڑیگا اور بمعہ اکہتر سال کے پرافٹ کے ساتھ، وگرنہ اس موقف کو تقویت ملے گی کہ تھل کو جان بوجھ کر پسماندگی کی دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).