ایک درد ناک داستان شہید میر مرتضیٰ بھٹو


وہ غیور غیرت مند دلیر نڈر بہادر اور اپنے باپ شہد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ایک جوشیلا لیڈر تھا۔ وہ جب بولتا تھا تو سامعین پر سکتہ طاری ہوجاتا تھا۔ وہ جب گرجتا تھا تو اپنے شہید باپ کی یاد دلاتا تھا۔ وہ ایک جدوجہدِ مسلسل تھا اسے جھکنے کا فن نہیں آتا تھا بلکہ خون میں شامل ہی نہیں تھا۔ بقول نصرت بھٹو کہ جب وہ چلتا تھا تو مجھے اس کے عکس میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نظر آتا تھا، جی ہاں میں بات کررہا ہوں میر مرتضیٰ بھٹو کی۔

20 ستمبر میر مرتضیٰ بھٹو کی المناک شہادت کا دن ہے۔ مگر اس سے بھی بڑی دکھ درد اور کرب کی بات یہ ہے کہ پیدائش اور موت کے درمیان صرف ایک دن کا وقفہ ہے۔ 18 ستمبر میر مرتضیٰ بھٹو کے یومِ پیدائش کا دن ہے جبکہ 20 ستمبر المناک موت کا دن ہے، بھٹو خاندان اور پارٹی کارکنان 18 ستمبر کو میر مرتضیٰ بھٹو کی سالگرہ کی خوشی مناتے ہیں اور ٹھیک ایک دن بعد پارٹی کارکنان اور بھٹو خاندان میں سوگ کا سماں ہوتا ہے۔

میر مرتضیٰ بھٹو 18 ستمبر 1954 کو صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کراچی گرامر اسکول سے حاصل کی اور مزید اعلیٰ تعلیم کرائسٹ چرچ، آکسفورڈ اور ہاروڈ سے حاصل کی۔ 18 مارچ 1978 کو مولوی مشتاق کی عدالت سے پھانسی کے فیصلہ کے بعد میر مرتضیٰ بھٹو نے اپنے والد کی زندگی بچانے کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی کو خیر آباد کہہ دیا. اس دوران ان کے چھوٹے بھائی شاہنواز بھٹوسوئٹزرلینڈ سے تعلیم کا سلسلہ منقطع کرکے لندن آ گئے اور دونوں بھائی اپنے والد کی زندگی بچانے کی تحریک میں شامل ہو گئے۔ لندن میں Queens Road کے قریب میر مرتضی بھٹو کا فلیٹ پاکستان کے منتخب وزیرِاعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے جھوٹے مقدمہ قتل میں سزائے موت کے خلاف عالمی مہم کا مرکز تھا۔ دنیا کے اخبارات، ہر ٹیلی وژن چینل نے اسی جگہ سے دونوں بھائیوں کی انتھک کوشش اور جدو جہد کو رپورٹ کیا۔

جنرل ضیإ کی آمریت پاکستان کی تاریخ کا بد ترین دور تھا۔ عوام اور خصوصاً پی پی پی کے کارکنوں پر وحشیانہ تشدد، ظلم و ستم اور کوڑے، پھانسیاں اس ظالمانہ عہد کی یاد دلاتی ہیں۔ اس مشکل دور میں دونوں بھائیوں نے مل کر عالمی سطح پر پرامن جدوجہد شروع کی۔ انھوں نے لندن میں بڑے بڑے مظاہروں کی قیادت کی۔ دنیا کے اہم رہنماؤں سے ملاقات کرکے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا اور بھٹو صاحب کی سزائے موت کو عالمی سطح کا موضوع بنا دیا۔ میر مرتضیٰ بھٹو کا یہ کردار اور جدوجہد بالکل جمہوری تھی لیکن 4 اپریل 1979 نے سب کچھ تبدیل کر دیا۔

میر مرتضیٰ بھٹو اپنے شہید والد کے عدالتی قتل پر شدید فسردہ تھے۔ انہوں نے غصے میں آکر ”الذوالفقار“ نامی مسلح تنظیم قائم کرکے جنرل ضیإ سے اپنے شہید والد کے قتل کا انتقام لینے کا ارادہ کرلیا، میر مرتضیٰ بھٹو بعد ازاں جلاوطنی کی زندگی گزارنے لگے ان پر یہ بھی الزام ہے کہ انھوں پشاور سے طیارہ بھی کابل اغوإ کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا، میر مرتضیٰ بھٹو نے جلاوطنی کے کئی شب و روز افغانستان میں بھی گزارے جہاں انھوں نے افغان وزرات خارجہ کے ایک اہلکار کی بیٹی فوزیہ فصیح الدین بھٹو سے شادی بھی کی جس کے بطن سے فاطمہ بھٹو نے 29 مئی 1982 ء کو افغان دار الحکومت کابل میں جنم لیا جبکہ ایک شادی غنویٰ بھٹو سے ہوئی جس سے جونیئر ذوالفقار علی بھٹو نے جنم لیا۔

مرتضیٰ بھٹو نے سندھ کے صوبائی حلقہ سے الیکشن میں حصہ لیا اور رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد وطن واپس آئے اور پاکستان پیپلز پارٹی )شہید بھٹو) کے نام سے نئی سیاسی جماعت قائم کر کے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ میر مرتضیٰ بھٹو اور بینظیر بھٹو کے درمیان ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دوریاں پیدا کی گئیں لیکن یہ دوریاں ستمبر 1996 کو قربت میں اس وقت بدلنے لگیں جب وزیراعظم بینظیر بھٹو نے اپنے بھائی کی سالگرہ پر نیک تمناٶں کے ساتھ پھولوں کا تحفہ اور کیک بھیجا تھا۔ مگر زندگی نے ہی مزید وفا نہ کی۔

20 ستمبر کی رات وزیراعظم محترمہ بنظیر بھٹو ہی کی حکومت میں ایک سوچی سمجھی منظم سازش کے تحت کارنر میٹنگ سے واپسی پرکراچی کے علاقے 70 کلفٹن میں گھر کے باہر گھات لگائے پولیس اہلکاروں نے جعلی مقابلے میں بے دردی سے گولیاں مار کر میر مرتضیٰ بھٹو کو دیگر 6 ساتھیوں سمیت شہید کردیا مگر افسوس کے ساتھ آج تک یہ معمہ حل نا ہوسکا کہ میر مرتضیٰ بھٹو کو کس نے قتل کروایا۔ کئی بار عدالت لگی کئی ججز تبدیل ہوئے مگر آج بھی کیس جوں کا توں ہے۔

دعا ہے اللّٰہ تعالیٰ میر مرتضیٰ بھٹو کو جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطإ فرمائے۔

آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).