سپنوں کی دنیا


عبداللہ صاحب پہلے یو اے ای میں الیکٹریشن کا کام کرتے تھے اور بعد میں ایک ٹکٹ سے دو مز ے کے فارمولے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے عمرے اور حج کے شوق میں سعودی عرب منتقل ہوئے۔ خیر سے حاجی بھی بنے، دسیوں عمرے بھی کیے اور بقدرِ کفاف روزی روٹی کمانے میں بھی کامیاب ہوئے۔ کافی عرصہ بعد انہوں نے بذریعہ واٹس ایپ وائس میسج کرکے مسئلہ دریافت کیا، سوال وجواب کے بعد راقم نے ان سے پوچھا آج کل کہاں ہوتے ہیں؟ موصوف چونکہ سنجیدہ طبیعت کے حامل ہونے کے باوجود بذلہ سنج بھی ہیں، اس لئے ہمارے بالکل مختصر سوال کے جواب میں ایک لمبی چوڑی صوتی تقریر جھاڑ دی۔

جس میں جناب نے اپنے ملک کا نام لیے بغیر صرف خد وخال بیان کرنے پر اکتفا کیا۔ ان کے بقول وہ جس ملک میں رہتے ہیں وہاں تبدیلی کا سفر ”ایاک نعبد وایاک نستعین“ سے شروع ہوکر مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اپنے اور پرائیوں کے احتساب کا عمل بلا امتیاز جاری ہے۔ فسطائیت اپنی موت آپ مر چکی ہے۔ بدعنوان اور کرپٹ سیاسی مافیا سلاخوں کے پیچھے ہے۔

خاندانی، موروثی سیاست اور الیکٹیبلز کی جگہ اب صاف ستھرے، شائستہ طرزِ گفتار کے حامل نوجوان اور پڑھی لکھی قیادت آچکی ہے۔ ملک میں ہر طرف سستے انصاف کا بول بالا ہے۔ میرٹ کلچر کے فروغ سے سفارشی کلچر روبہ زوال ہے۔ کرپشن کے خاتمے کی جد وجہد مخصوص دائرے سے نکل کر پورے ملک میں ہر سطح پر ہونے والی اخلاقی اور مالی کرپشن کے خلاف تیزی سے جاری ہے۔ پولیس کی غنڈہ گردی ختم اور پولیس میں سیاسی مداخلت کا نام ونشان تک باقی نہیں رہا ہے۔

ادارے مضبوط، فوج کی سرگرمیاں ملک کی سرحدوں کی حفاظت تک محدود اور ججز سب کے سب قاضی شریح بن چکے ہیں۔ صفائی ستھرائی اور پرکشش ٹریفک نظام کی وجہ سے ملک گویا یو اے ای کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا: قرض تو ہمارے اربابِ اقتدار اب جانتے بھی نہیں بلکہ وہ تو آئی ایم ایف کے پاس جانے پر خودکشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ کشکول بھر بھر کر لیتے نہیں بلکہ اب دوسروں کو دیتے ہیں۔ ہمارا ملک تو ہوا ایک طرف، ملک کا کوئی باشندہ بھی اب مقروض نہیں رہا ہے۔

ڈالر تیزی سے گرتے ہوئے اسی روپے پر پہنچ چکا ہے اور بعید نہیں کہ اگلے چار سال میں روپے اور ڈالر کا توازن برابر ہو جائے۔ عادل حکمران کی وجہ سے ملک میں ایسی برکت آئی ہے کہ صرف سلائی مشینوں کے ذریعہ باآسانی ارب پتی بنا جا سکتا ہے۔ فی کلومیٹر پچپن روپے کے خرچ والا ہیلی کاپٹر آپ نے دنیا میں کہیں دیکھا، سنا ہے؟ لیکن ہمارے ہاں یہ بھی آپ کو آسانی سے مل سکتا ہے۔ ہیلی کاپٹر کے ڈانواں ڈول سفر سے ابکائی آنے کا خطرہ ہو تو تین سو پچاس ڈیمز کے کنارے چلتے میٹرو کا سفر نہ بھولیے گا۔

نوکری جو کبھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتی تھی اب کروڑوں کے حساب سے گھر گھر دستک دے رہی ہے۔ ملک اتنی ترقی کر گیا ہے کہ لوگ بیرون ملک اپنی اچھی بھلی نوکریاں چھوڑ چھاڑ کر یہاں کا رخ کرنے لگے ہیں، میں نے یوں ہی تو سعودی عرب نہیں چھوڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا اس سے پہلے ملک میں مہنگائی اس لئے تھی کہ وزیر اعظم چور تھا، کرپشن کا دور دورہ تھا جبکہ اب صادق و امین کا دورِ حکومت ہے، دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں اور مہنگائی کا وجود تو دور کی بات، مطلب بھی آہستہ آہستہ عوام بھولنے لگے ہیں۔

روزانہ کے حساب سے بارہ ارب کرپشن ختم ہو کر تیرہ ماہ میں 4680 ارب روپے ملکی خزانے میں جمع ہو چکے ہیں، جبکہ باہر سے درآمد کیے گئے 200 ارب ڈالر اس کے علاوہ ہیں۔ تیل کے ذخائر سمندر میں جگہ جگہ دریافت ہو چکے ہیں، پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر نے ملک کی رونق میں دن دگنی رات چوگنی اضافہ کردیا ہے اور جگہ جگہ بجلی کی جگمگاہٹ سے ملک کا حسن دیدنی ہے۔

ہمارا ملک جو پہلے ہی سرسبز وشاداب تھا، اب ایک بلین مزید درختوں سے اس کا چپا چپا سبزہ زار بن چکا ہے۔ صفائی ستھرائی کا یہ عالم ہے کہ ملک کے بعض ویہلے نوجوانوں کو اب مکھی مار روزگار بھی نہیں مل رہا، اور ملے بھی کیوں؟ دیگر نوکریوں کی بھرمار جو ہے! پٹرول کا تو پوچھیے ہی مت! صرف پچاسی روپے فی لیٹر دستیاب ہے، اور اگر اگلے چند سالوں میں ہماری قابل قیادت نظرِ بد سے محفوظ رہی تو بعید نہیں کہ عرب ممالک ہم سے تیل کی بھیک مانگنے لگ جائیں۔ عبداللہ کی تقریر سنتے ہوئے ان کا منہ مبارک تو ہمیں نظر نہیں آرہا تھا لیکن بولتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کے منہ سے جھاگ نکل رہی ہو۔

انہوں نے اپنی آواز کو مزید کڑک کرتے ہوئے کہا: ”وزیراعظم ہاؤس میں یونیورسٹی، اور گورنر ہاؤس میں لائبریری کا تو منظر ہی کچھ عجیب ہے۔ پروٹوکول سسٹم اور وی آئی پی کلچر کا تو ستیا ناس کردیا گیا ہے اور تو اور ہمارے وزیراعظم صاحب خود سائیکل پر آفس آتے جاتے ہیں۔ بہ خدا! اگر میں نے ان کی قمیص میں سوراخ اور ان کو واسکٹ دوسروں سے عاریتاً لیتے ہوئے نہ دیکھا ہو۔ سادگی کا یہ عالم ہے کہ جب تک اہلیہ محترمہ یاد دہانی نہیں کرتیں تب تک ان کو اپنے وزیر اعظم ہونے کا ہوش ہی نہیں رہتا۔

”خبردار! بات راز کی ہے، کہیں پڑوسی ملک کو خبر نہ ہو جائے، اس ساری ترقی کے پیچھے ایک لڑکھڑاتی، پھسلتی زبان کے مالک اور یو ٹرنز کے بادشاہ کا ہاتھ ہے، انہی کا قول ہے کہ عظیم لیڈر بننے کے لئے یوٹرن لینا ضروری ہے۔“

عبد اللہ نے تقریر کے آخر میں کہا: ہم نے منظر آپ کے سامنے رکھ دیا ہے اب آپ خود کامن سینس استعمال کرکے مذکورہ اوصاف والے ملک کا پتہ لگا کر جلد از رختِ سفر باندھ لیں۔ ”

جواب میں ہم نے عرض کیا کہ دراصل آپ مملکتِ احلام ستان میں رہ رہے ہیں جسے انگریزی میں Country of the Dreams کہا جاتا ہے یا پھر آسان الفاظ میں سپنوں کی دنیا کہہ سکتے ہیں۔

سوتے وقت انسان جو سوچتا ہے خواب میں بھی وہی آتا ہے، تب ہی تو کہنہ مشق حکما کہتے ہیں کہ اگر سوتے وقت ذہن سے سفلی خیالات نکال دیے جائیں تو برے خواب نہیں آتے۔ آپ کے خیالات سفلی نہیں بلکہ تعمیری ہیں، گھبرائیں نہیں! خواب دیکھتے جائیں، جب آپ کے خواب شرمندہ تعبیر ہو جائیں گے تو پھر ہم بھی آپ کے پیچھے آجائیں گے۔ فی الحال صرف پھٹی قمیص اور ادھار واسکٹ پر دھوکہ نہیں کھا سکتے۔ انتظار۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).