میل فی میل ڈاکٹرز سمیت دیگربنیادی طبی سہولیات سے محروم ٹی ایچ کیو نوکنڈی


ایک صحت مند جسم سے ہی ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے۔ اگر کسی انسان کی صحت خراب رہے تو معاشرہ سمیت ملک و قوم کی تعمیر وترقی میں میں کبھی بھی بحیثیت معاشرے کے ایک فرد کے وہ اپنا کردار ادا نہیں کرسکتا۔ روٹی، کپڑا، مکان سمیت صحت کے بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومت وقت کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔ بیان کردہ بلاگ صحت کے شعبے کے بارے میں لکھا گیا ہے۔

صحت کے شعبوں میں کام کرنے والے ڈاکٹر کو دکھی انسانیت کے خدمت گار اور مسیحا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور اس شعبے میں ڈاکٹروں کی مانگ روز افزوں بڑھتی جارہی ہے۔ چونکہ ہسپتالوں میں داخل ہوتے وقت ہمیں داخلی گیٹ و ودروازوں پر ارشاد باری تعالیٰ مع ترجمہ پڑھنے کو ملتا ہے۔ ”جس کسی نے بھی ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا“ (سورۃ المائدہ 32۔) اور ہماری معاشرتی سوچ کے مطابق متذکرہ ارشاد میں انسانی جانوں کو بچانے والے معالج یعنی ماہر طب اور ہسپتالوں میں مسیحا اور ڈاکٹرسے تشبیہہ دیا جاتا ہے جوکہ بالکل برعکس ہے۔

کیونکہ حالیہ دور میں ڈاکٹر انسانیت کے واسطے قیمتی انسانی جانوں کوبچانے والے دکھی انسانیت کی خدمت جیسے عظیم پیشے کو منافع بخش کاروبار سمجھ کر دولت و جائیدادسمیٹنے کا معتبر ذریعہ سمجھتے ہیں۔ مسیحاؤں کی سوچ قیمتی انسانی جانوں کو بچانے کی بجائے جب زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے والی بن جائے تو اس معاشرے میں ڈاکٹر کبھی بھی مسیحا کہلانے کے لائق وحقدار نہیں ٹھہریں گے۔ تو آیئے آپ قارئین کو بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں دکھی انسانیت کے خدمت کی راگ الاپنے والے اِن ڈاکٹروں کی فقِیدالمثال داستان سناتے ہیں۔

مگر اس سے قبل نوکنڈی و قرب وجوار کے دیہاتوں کے محل وقوع کے ذکر کو فوقیت دیے بنا یہ مضمون نامکمل تصور ہوگا۔ نوکنڈی ضلع چاغی کی ایک تحصیل ہے جو مختلف دیہات پر مشتمل ہے۔ جس کی ٹوٹل آبادی 22 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ نوکنڈی کے قُرب وجوار میں راجے، گوالسٹاپ، عیسیٰ طاہر، کرتاکہ، جھلی، ملک نار جان، مشکی چاہ، دُور بن چاہ سمیت دیگر چھوٹے بڑے دیہات واقع ہیں۔ نوکنڈی سمیت دیگر تمام دیہات کی آبادی کا اِنحصار واحد رورل ہیلتھ سینٹر پر ہے۔

اس سنٹر کو حال ہی میں RHCسے THQکا درجہ دیا گیا۔ حالیہ دنوں میں محدود اسٹاف انچارج کی سربراہی میں جانفِشانی سے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہوکر روزانہ کی بنیاد پر ہسپتال آنے والے خواتین، بچوں وضعیف ا لعُمر افرادکا سہارا بناہوا ہے۔ موجودہ THQمیل فی میل ڈاکٹرز کی عدم تعیناتی، ایکسرے مشین، الٹراساونڈ سمیت چھوٹی چھوٹی بیماریوں کی تشخیص کے لئے لئے جانے والے ٹیسٹ کی سہولت ودیگرجدید بنیادی طبی سہولیات سے محروم ہے۔ اور ساتھ ہی پرانی آبادی کے لیے ادویات کا کوٹہ حالیہ آبادی کی نسبت بالکل ناکافی ہے جس کے باعث ہسپتال میں ادویات کی بھی شدید قلت پائی جاتی ہے۔

ہسپتال میں دیگر سہولیات کے فقدان کے علاوہ میل فی میل ڈاکٹرز کی عرصہ دراز سے عدم تعیناتی سے شہریوں ودیہات میں آباد افراد کو بہت مشکلات درپیش ہیں۔ ڈیلیوری کے کیسز میں لیڈی ڈاکٹر کی عدم دستیابی کی صورت میں مریضہ کو ضلعی ہیڈکوارٹرز کے نجی ہسپتالوں یا صوبائی دارالحکومت کوئٹہ لے جانا پڑتا ہے۔ جہاں اکثرو بیشتر مریضہ کو ہسپتالوں تک بروقت رسائی حاصل نہ ہونے سے سالانہ درجنوں خواتین کی قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔

علاوہ ازیں قومی آرسی ڈی شاہراہ نوکنڈی سے ہوکر گزرتی ہے جس کے سبب آئے روزٹریفک کے معمولی حادثات کے علاوہ ہولناک حادثوں کاپیش آنا بھی معمول کا حصہ ہے۔ مگر یہ جان کرتاسف ہوگا کہ ہولناک حادثات وواقعات کے زخمیوں کو طبی امداد دینے کے لئے بیہوشی کی حالت میں آکسیجن کی عدم دستیابی سمیت دیگر سہولیات کی ناپیدگی کے باعث 460 کلومیٹر دور کوئٹہ منتقل کرنا پڑتا ہے۔ زخمی افراد درد سے کراہتے ہوئے تڑپ تڑپ کر بروقت طبی امدادنہ ملنے کے باعث زخموں کے تاب نہ لاتے ہوئے راستے میں ہی دم توڑدیتے ہیں جوکہ افسوسناک ہے۔

ہسپتال میں حل طلب اور دیرینہ مسئلہ میل فی میل ڈاکٹرزکی عدم تعیناتی ودیگر بنیادی طبی سہولیات کے فقدان کا ہے۔ منتخب نمائندگان کا کہناہے کہ میل فی میل ڈاکٹروں کو سرکاری تنخواہوں کے علاوہ مختلف ذرائع سے ملنے والی بھاری رقم کی آفر کے باوجود نوکنڈی جیسے دورافتادہ علاقے میں آنے سے منکر ہیں۔ جبکہ ہسپتال کے ذمہ دار شخص کے مطابق حیلہ جو ڈاکٹرنا مناسب تنخواہ، سہولیات کی ناپیدگی اور دورافتادہ علاقہ ہونے کے باعث یہاں آنے میں مختلف حیلے بہانوں کا سہارا لے کر ٹال مٹول کرتے ہیں۔

ساری صور ت حال اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ نوکنڈی کوئٹہ جیسا شہر نہیں، جہاں میل فی میل ڈاکٹر فرسٹ ٹائم ہسپتال میں ڈیوٹی دے کر سیکنڈ ٹائم نجی کلینکس میں بیٹھ کر بھاری بھرکم رقوم سے غریب شہریوں کی کھال ادھیڑتے ہیں۔ درحقیقت جہاندیدہ میل فی میل ڈاکٹرز پشت پناہی حاصل ہونے کے علاوہ، محکمہ صحت کی عدم توجہی، عدم دلچسپی، غفلت و بے حسی کے باعث آئیں بائیں شائیں کرکے نوکنڈی آنے سے منکر ہیں۔ محکمہ صحت کے ذمہ داران کی جانب سے عرصہ دراز سے مذکورہ علاقے کے ہسپتال میں میل فی میل ڈاکٹرز کی عدم تعیناتی ان کی اپنی بے بسی و بے حسی کو عوام کے سامنے آشکار کرتی ہے جولمحہ فکریہ ہے۔

تمام تر حقائق جان کے یہ فیصلہ قار ئین پر ہے کہ آیا دکھی انسانیت کی خدمت کا لبادہ اوڑھنے والے کاروباری میل فی میل ڈاکٹرزمسیحاکہلانے کے لائق ہیں یا نہیں؟ جو لوگ اپنے ہی عظیم پیشے کے ساتھ مخلص نہ ہوکر اس عظیم پیشے کو منافع بخش کاروبار سمجھ کر قیمتی جانوں کو موت کی وادی میں ضائع ہوتا دیکھ کر اپنے بینک بیلنس برابر کرنے چکر میں ہیں۔ لہٰذا میڈیکل کالجز کے ذمہ داران سے دست بستہ اپیل ہے کہ وہ ڈاکٹری کے شعبے میں زیر تعلیم طلباء وطالبات کو نصاب کے علاوہ اخلاقیات وانسیانیت دوستی کا درس بھی دیا کریں تاکہ دکھی انسانیت کی خدمت کے راگ الاپنے والے یہ علمبردار حقیقی معنوں میں اپنا فریضہ ادا کرکے انسانیت کی خدمت وقیمتی جانوں کو بچانے میں کردار ادا کریں۔

اور ساتھ ہی ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ صحت کے اعلیٰ سطح کے ذمہ داران فوری طور پر ہسپتال میں میل فی میل ڈاکٹرزکی تعیناتی، الٹراساونڈ، ایکسرے مشین سمیت دیگر چھوٹی چھوٹی بیماریوں کی تشخیص کے لئے ٹیسٹ و جدید طبی سہولیات فراہم کرنے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے تاکہ حقیقی معنوں میں دکھی انسانیت کی خدمت کا خواب تعبیر ہوا جاسکے۔

بلاگر بلوچستان کے ضلع چاغی کا علاقائی صحافی اور بی اے کا طالب علم ہے۔ روزنامہ قدرت کے لئے کالم لکھنے کے ساتھ ساتھ دو سال کے عرصے سے مختلف اخبارات سے بطور نمائندہ وابستہ رہتے ہوئے یہاں کے علاقائی مسائل کو رپورٹنگ و قلمکاری کے ذریعے انہیں اجاگرکرتے رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ خود کوسینئیر اور غیرجانبدار صحافیوں کی صف میں شامل کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).