کرمان کے ایک بچے کا سفرنامہ اصفہان


اب کوئی چارہ نہیں تھا۔ لکھنا وہیں ادھورا چھوڑا۔ نیچے اتر کر جغرافیہ کتاب کھولی اور پھر وہاں سے دیکھ دیکھ کر، یوں لکھنے لگا جیسے خود سب مقامات دیکھنے کے بعد لکھ رہا ہوں۔

رات کو وہیں سوئے۔ اس سے اگلے دن اور پھر اس سے اگلے دن، وہیں ٹرک کے پاس سفرنامہ ہاتھ میں پکڑے، جو نئی چیز نظر آتی۔ لکھتا رہا۔ ایک بار اکیلا ہی شہر کی طرف جانے لگا۔ ورکشاپ سے باہر نکلا۔ لیکن پھر اس ڈر سے کہ کہیں گم نہ ہو جاؤں اور اکبر آغا کا وقت مجھے ڈھونڈے میں برباد نہ ہو۔ چنانچہ واپس مڑا۔ ورکشاپ کے مالک سے پوچھا، ”چچا! یہ منارجنبان کس طرح کی جگہ ہے؟ “

”منار جنبان جگہ نہیں ہے بلکہ مینار ہے جو کہ ہلتا ہے۔ جب زیادہ بوڑھا ہو جائے گا اور تب ہلنا بند ہو جائے گا۔ “

سورج کے غروب ہونے تک اسی طرح بے کار بیٹھا اکبر آغا کی طرف دیکھتا رہا کہ کب ان کا کام مکمل ہو۔ آخر کام مکمل ہوا۔ انہوں نے ہاتھ منہ دھویا، کپڑے بدلے اور بولے، ”مجید چلو۔ کام پورا ہوگیا ہے۔ “

میں بہت خوش ہوا ہے، ”کہاں جانا ہے؟ “ ”پہلے ’پل خواجو‘ ، پھر ’چہار باغ‘ ، پھر۔ “
ہنسنے لگے اور کہا، ”انشاء اللہ اگلی بار۔ تمہیں پتہ ہی ہے کہ میری بیوی بیمار ہے۔ اب یہاں مزید نہیں رک سکتے۔ اگلی دفعہ جب اصفہان آئیں گے تب ہر جگہ کی سیر کریں گے۔ تم بھی اپنی کتاب میں ہر چیز کو لکھ لینا۔ “

ایک گلاس ٹھنڈا پانی میں نے اپنے اندر انڈیلا۔ اپنی جگہ سے اٹھا اور ٹرک میں اکبر آغا کے ساتھ بیٹھ گیا۔ میرے ساتھ فضل اللہ بھی آ کر بیٹھ گیا۔ اصفہان کی سڑکوں اور سی و سہ پل سے گزرے۔ میری خواہش تھی کے اپنی آنکھوں سے سی و سہ پل، دکانوں، گلیوں اور ہر نظر آنے والے منظر کو، ہضم کر لوں۔ لکھنے کی فرصت نہیں تھی۔ ایک مٹھائی کی دکان پر رکے۔ دو ڈبے مٹھائی خریدی اور پھر چل پڑے۔ ساری رات سفرجاری رہا اگلے دن سفرنامے کے آخری صفحوں پر لکھا:

”اصفہان کے تاریخی مقامات کا عیب یہ ہے کہ یہ زمین پر اس طرح بنائے گئے ہیں کہ بڑے بڑے درختوں اور اونچی عمارتوں کی وجہ سے انہیں ٹرک پر سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اگر چہارباغ اور سی و سہ پل کو بڑے بڑے ستونوں پر بنایا گیا ہوتا تو انہیں دیکھنا زیادہ آسان تھا۔ اگر کوئی اصفہان آنا چاہتا ہے تو اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ ایک بڑی اور طاقتور دوربین اپنے ساتھ لے کر آئے تاکہ تاریخی عمارتوں کی خوبصورت کاشی کاری کو دیکھ سکے۔

”ٹوپی یا پھر چھتری بھی ساتھ ہونا ضرور ہے تاکہ جلد سورج کی تپش سے نہ جلے۔ اور یہ کہ یہی زیادہ بہتر ہے کہ اصفہان میں ورکشاپوں کو تاریخی مقامات کے نزدیک بنایا جائے تاکہ اگر کوئی ان ورکشاپوں میں گاڑی کی مرمت کے لیے آئے تو آسانی کے ساتھ اُن کی سیر کر سکے۔ اس کے علاوہ اصفہان کے لوگوں کو چاہیے کہ اس تاریخی شہر میں درختوں کو اس قدر بلند نہ ہونے دیں کہ یہ خوبصورت منظروں کو چھپا لیں۔ یہ زیادہ بہتر رہے گا کہ کچھ لوگوں کو پیسے دے کر اس کام پر لگایا جائے کہ وہ شہر کے آس پاس موجود ورکشاپ کے قریب کھڑے ہو کر شہر کی طرف دیکھیں اور ہر وہ درخت جو گنبد اور میناروں کے سامنے نظر آئے، انہیں کاٹنے کا حکم دیں۔

”اور یہ کہ ماہر نشانہ بازوں کو مقرر کیا جائے جو اونچا اڑنے والے کوؤں کو، بنا رحم کیے ہلاک کریں۔ تاکہ کوے سیاحوں کے لیے رکاوٹ نہ بنیں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ ورکشاپوں کے مالک اور کاریگروں کے کان اینٹھے جائیں اور ان کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ تاریخی مقامات کی سیر لازمی کریں تاکہ سیاحوں کے سوالات کے درست جواب دیں سکیں اور ۔ ۔ ۔“

گھر پہنچ کر انگور اور چائے اپنے سامنے رکھے، لوگوں کو جمع کیا اور اصفہان کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ وہ ہکا بکا ہو گئے۔ سفرنامے کو بھی تھوڑا تھوڑا کرکے بی بی کو سنانے لگا۔

چھٹیوں کے بعد، سکول میں، اپنی کلاس میں، اصفہان اور اس کے تاریخی مقامات، گلیوں، سڑکوں اور شہر کے بارے میں بتانے لگا۔ یہاں تک کہ بچوں نے میرا نام ہی ’مجید اصفہانی‘ رکھ دیا اور جب جغرافیہ کے استاد نے پوچھا کہ ”آپ میں سے کوئی اصفہان گیا ہے۔ “ تو میں نے فوراً کہا، ”جی، میں گیا ہوں۔ “ اور دوسروں نے میری اس بات کی تصدیق کی۔ اس وقت استاد نے کہا، ”اچھا! وہاں کے بارے میں بتاؤ، تاکہ دوسرے بھی اِس بارے میں جان سکیں۔ “

تب میں نے جغرافیہ کی کتاب میں اصفہان کے بارے میں جو کچھ پڑھا اور اس کے علاوہ دیکھ اور سن رکھا تھا۔ وہ سب بتانے لگا۔ استاد بہت خوش ہوئے اور بولے، ”آفرین! بارک اللہ“
پھر دوسروں کی طرف رخ کر کے بولے، ”سیر کرنے اور دوسرے علاقوں کے سفر سے کا یہی فائدہ ہوتا ہے۔ آپ سب کو بھی سیر پر جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ “
میری بہت خواہش ہے کہ اپنے اس سفرنامے کو چھپواؤں۔ لیکن کوئی بھی پبلشر اسے چھاپنے کے لیے تیار نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4