جنہیں پائلٹ بننا تھا وہ ”جہاز“ بن گئے ہیں
ایک نشئی قبر کی اوٹ میں بیٹھا نشہ فرمایا رہا تھا قبرستان انتظامہ کے اہلکا رنے پوچھا ”اوئے کیا کر رہے ہو؟“ نشئی نے جواب دیا ”والد کی قبر پر فاتحہ پڑھ رہا ہوں“ اہلکار نے کہا“”مگر یہ قبر تو کسی بچے کی ہے۔“ نشی نے پر اعتماد لہجے میں جواب دیا ”جی میرے والد صاحب بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے۔“ ہمارے ایک ملنے والے ہیں جو اکثر لوگوں کو کسی قبر کی اوٹ میں بیٹھے اپنے مرحوم والد، جو پچپن میں فوت ہوگئے تھے، پر فاتحہ پڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
راوی بتا تا ہے کہ موصوف نے شروع میں سگریٹ مانگ کر پینا شروع کی تھی لیکن پھر دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کی اور علاقے کے نامی گرامی نشئی قرار پائے۔ موصوف اب سگریٹ مانگ کر نہیں پیتے صرف مانگتے ہیں۔ صرف یہی صاحب نہیں، نشے میں مبتلا ہونے والا ہر شخص اسی طرح ”جہاز“ بنتا ہے۔ پہلے مرحلے میں دوستوں کی محفلوں میں فلمی انداز میں سگریٹ سلگائے جاتے ہیں پھر ایک آدھ بار ”پکی سگریٹ“ کا کش لگا لیا جاتا ہے اور اس بعد یہ ”پکی سگریٹ“ کا کش پکا ہو جاتا ہے۔ یعنی جب بھی دوستوں کی محفل برپا ہوتی ہے یہ ”پکی سگریٹ“ جو تمباکو اور چرس کی آمیزش سے بنائی جاتی ہے لازمی سلگائی جاتی ہے۔
پھر کچھ عرصے بعد ”پکی سگریٹ“ پینے والے اقبال کے یہ شاہین ہیروئین اور کوکین کے نشے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اگر بچوں میں سگریٹ نو شی کے شواہد ملیں تو فی الفور انہیں سگریٹ ترک کرنے پرآمادہ کریں۔ اس آمادگی کے لیے والدین کوئی بھی حربہ استعمال کر سکتے ہیں۔ اگروالدین روایتی سوچ رکھتے ہیں تو یقیناً ان کے لیے ”مولا بخش“ سے اچھا آپشن کوئی نہیں ہے لیکن اگر وہ ”حکومت پاکستان کے سلوگن ”مار نہیں پیار“ سے متفق ہیں تو سگریٹ نوشی کے مضراثرات سے آگاہی کے لیے اپنے ”وحید مراد“ کے ساتھ ایک طویل بیٹھک بھی رکھ سکتے ہیں۔
دونوں صورتوں میں ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔ اسی پس منظر میں ایک اور لطیفہ سن لیں ایک والد کو شک ہوا کہ اس کا برخودار کسی قسم کی منفی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ ایک دن اچانک اس نے اپنے بیٹے کی تلاش لی تو جیب میں سے نسوار کی ڈبیا، خواجہ سرا کی تصویر اور ایک سگریٹ کی ڈبی برآمد ہوئی۔ باپ نے طیش میں آکر بیٹے کو طمانچہ رسید کیا اور بھاری بھر کم گالیا ں دیتے ہوئے پوچھا ”یہ کیا ہے؟“ بیٹے نے منہ بسورتے ہوئے کہا ”ابا جی آج میں نے غلطی سے آپ کی قمیض پہن لی ہے۔“
یہاں میں ایک ضمنی بات عرض کر تا چلوں کہ تلاشی لیتے وقت والد کو چاہیے کہ وہ پہلے اس بات کی خوب تسلی کر لے کہ کہیں برخودار نے ان کی ہی قمیض یا شرٹ تو نہیں پہنی ہوئی ہے۔ جی میں کہہ رہا تھا کہ جہاں والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں وہاں حکومت پاکستان کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان منشیات فروشوں کو قانون کی گرفت میں لا کر قرار واقعی سزا دیں۔
جو ہماری نوجوان نسل کو نشے کی دوزخ میں دھکیل رہے ہیں۔ جس طرح حکومت آج کل خفیہ اکاونٹس اور بے نامی جائیدادیں آشکار کر ہی ہے اگراسی طرز پر حکومت اُن خفیہ ہاتھوں کو بھی قانون کی گرفت میں لے آئے جو ہمارے سماج میں منشیات کا زہر پھیلا رہے ہیں تو یقیناً کئی گھروں کے چراغ گل ہونے سے بچ جائیں گے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 80 لاکھ لوگ پاکستان میں نشے کی لعنت میں مبتلا ہیں اور صرف کراچی شہر میں روزانہ 90 لاکھ روپے کی منشیات فروخت ہوتی ہے۔ یہ اعداد و شمار منشیات کی تباہ کاریوں کی واضح تصویرپیش کرتے ہیں۔ ویسے تو بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا ہے لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت صحت مند تفریح اور روزگار کے مواقع پیدا کرے تا کہ تعلیم یافتہ نوجوان مایوس اور ڈپریشن کا شکا ر ہو کر نشے کی بھینٹ نہ چڑھے۔
- کہیں سے آغاز تو کرنا ہو گا - 01/01/2021
- وائٹ ہاؤس سے تین کلو میڑ کے فاصلے پر - 27/12/2020
- سیاسی جلسوں میں شرکا کی حتمی تعداد کا مسئلہ - 21/12/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).