بیچاری بیوہ سفارتکاری


غریب بیوہ تین بچوں کے ساتھ تین دن سے بھوکی پیاسی تڑپ رہی تھی۔ چھوٹا چھے مہینے کا بچہ بھوک برداشت نہ کر سکا، انتقال کر گیا۔ بچے کے کفن دفن کے لیے محلے دار اکٹھے ہو گے۔ کھانا پینا بھی آنا شروع ہو گیا۔ معصوم بچے کی قربانی سے باقی دوبچے اور ماں کے کھانے کا بندوبست ہو گیا۔ مگر کچھ عرصے بعد دوبارہ پرانے بھوک کے دن شروع ہو گے۔ لوگوں نے وقت گزرنے کے ساتھ بھلا دیا۔ بھوک سے مجبور بڑی بیٹی ایک دن ماں کے پاس آ کے بولی ”ماں یہ بھیا کب مرے گا، عرصہ ہوا پیٹ بھر کے کھانا نہیں کھایا۔“ ماں نے بلک کے بیٹی کے منہ پہ ہاتھ رکھا۔ خبردار آئندہ ایسا کہا۔ بھوک انسان سے کیسے کیسے فیصلے کروا دیتی ہے۔

کسی زمانے میں امریکہ کے لیے ہم مجبوری تھے، ان کے ڈالروں اور سعودی کرنسی سے ہماری اشرافیہ کی جیبیں گرم تھیں۔ ہمارے طالبان ان کے لیے مجاہد تھے۔ سعودیہ کی بھرپور حمایت سے بہت سے عرب بھائی بھی پاکستانیوں کے ساتھ شانہ بشانہ افغانستان کے محاذوں پہ لڑ رہے تھے۔ آخر کار وقت بدلا تمام لوگوں کا جاب رول تبدیل ہو گیا۔ اس کے ساتھ پاکستان کا سفارتی سطح پہ ایک محاذ کھل گیا۔ جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ ہماری فیصلہ ساز قوتوں کی یہ خام خیالی تھی کہ ہم آج بھی امریکہ سعودیہ کی آنکھ کا تارہ ہیں۔ وہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑیں گے۔

تو جناب سن لیں۔ اگر ہم یہ سوچ لیں کہ سعودیہ، ایران جنگ میں ہم استعمال ہوں گے تو اس کا جواب نفی ہے کیونکہ ہم نے جو امریکہ کو افغانستان میں گھومایا ہے اس کے بعد وہ زمینی سچائی جان کے آئندہ سو سال کی پلاننگ کر چکا ہے۔ اسے کس ملک کو کس جگہ اور کیسے ٹارگٹ کرنا ہے۔ امریکہ، سعودیہ نے ایران پہ اگر جنگ مسلط کی تو کویت کے فوجی اڈے، عمان کی بندرگاہیں کافی ہیں۔ صلح کرنے کے لیے انڈیا بہترین چوائس ہے کیونکہ اس کے ایران، سعودیہ اور امریکہ سے تعلقات پاکستان سے زیادہ اچھے ہیں۔

باقی امریکہ کے پاس اب طالبان کی طرز پہ پوری فوج آئی ایس آئی ایس کے نام کی ہے۔ جن سے وہ کسی بھی ملک پہ گوریلہ طرز کا چھوٹے گروپس کی شکل میں حملہ کر سکتے ہیں۔ تیسری اکانومی کی جنگ ہے۔ جس سے آج کل ہم لڑ رہے اور یہ جنگ دشمن کی بہترین چال ہے۔ یہ ایٹمی جنگ سے بھی مہلک ہے۔ باقی یار لوگ یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ خان صاحب سعودیہ، امریکہ کچھ بڑا کرنے گئے ہیں۔ یہ دورہ ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی باس کے پاس جائے۔ سب سے بہترین ملازم وہ ہوتا ہے جو اچھی بے عزتی کروائے۔

میرے خیال میں ایک لسٹ بنی ہوتی ہے اس پہ سائن کرنے کے لیے بلایا ہے۔ دیکھنا یہ ہے، وہ لسٹ کیا ہے؟ کیا واقعی کشمیر ہم نے دے دیا ہے، کیا عرب ممالک نے کہا کہ برائے مہربانی آپ کشمیر کے معاملے میں مسلم امہ کے فقرے کو نہ گھسیٹیں؟ بہت جلد اس کے اثرات سے پتہ چل جائے گا۔ ویسے میری ذاتی سوچ ہے کہ پاکستان سفارتی سطح پہ تاریخ کے بدترین دور سے گزررہا ہے۔ روزی روٹی کے چکر میں لگتا ہے بیوہ کا بڑا بیٹا بھی انتقال کر گیا ہے بلکہ بیٹی پہ امریکہ کی گندی نگاہ ہے، جب تک بیٹی ہے ہم عربوں کی مجبوری اور امریکہ، انڈیا کے لیے خطرہ ہیں۔ بڑا بیٹا کشمیر اور بیٹی ایٹم بم ہے۔ بیوہ کا نکاح کروانا باقی ہے تا کہ بانجھ کسی کی مکمل رکھیل بن کے موت کا انتظار کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).