زندہ ہے سندھو دریا زندہ ہے


15 ستمبر کو گھوٹکی میں ہندو پرنسپل نوتن لال پر چودہ سالہ مسلمان شاگرد کی طرف سے بلاسفیمی کے الزام کے ردعمل میں مشتعل ہجوم مندر اور اسکول پر ٹوٹ پڑا اور شدید توڑ پھوڑ ہوئی۔ صد شکر کہ انسانی جانوں کی بچت ہو گئی۔

گو کہ پاکستان میں یہ منظر اب نیا نہیں ہے، مگر الاس!
سندھ میں بھی ایسا ہوسکتا ہے!

15 ستمبر کی وہ پوری شام گھوٹکی واقعے سے بے خبر ہم کچھ لوگ سندھ کے حوالے سے مایوسی کی باتیں کر رہے تھے کہ ہم میں موجود جامی چانڈیو چیخ پڑا کہ سندھ کو آپ لوگوں نے دیکھا ہی نہیں۔ سندھی نوجوان آپ کی سوچ سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ اس کی سوچ اور مطالعے کا آپ کو اندازہ ہی نہیں۔ چل کر دیکھیے چھوٹے چھوٹے شہروں میں، کیا لڑکے اور کیا لڑکیاں! سندھ کے دور دراز کے علاقوں میں کیا شعور پھیلا رہے ہیں وہ!

جامی چانڈیو کا تو اپنا کام بھی یہی ہے کہ شاہ لطیف کے جوگی فقیروں کی طرح پاکستان بھر میں کوچہ بہ کوچہ، قریہ بہ قریہ گھومتا پھرتا ہے اور نوجوان لڑکے لڑکیوں میں علم و شعور بانٹتا پھرتا ہے۔

15 ستمبر کی اس رات عشا نماز سے فارغ ہو کر سونے سے پہلے فون کھولا تو سوشل میڈیا گھوٹکی واقعے سے بھرا ہوا تھا۔
مندر اور پروفیسر نوتن کے اسکول میں کی گئی توڑ پھوڑ، بپھرے بلوائیوں کا ہجوم، خوف، فتوے، بغیر عینی شاہدین کے کم عمر لڑکے کا بیان اور اس کے ساتھ ڈٹا کھڑا شعلہ بار باریش شخص!

رات گزرتی رہی مگر میرا بستر مجھے جیسے سونے کی جگہ ہی نہ دے رہا تھا کہ اٹھ، نکل یہاں سے۔ تو سونے لگی ہے اے مسلمان! تیرے دیس کے کمزور ہوچکے ہندوؤں پر قیامت ٹوٹ پڑی اور تو نماز پڑھ کر اب لمبی تان کر سو جائے گی!
کس منہ سے تو سوئے گی اے نام نہاد نمازن؟

کروٹیں لیتے ہوئے میرے اندر کے نمازی مسلمان نے تسلی دی کہ گستاخی کا معاملہ ہے، چپ کرکے سو جا۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔
مگر بستر نے مجھے دھکیل باہر کردیا۔ اٹھ کر ایک سیدھی کرسی پر بیٹھ گئی اور پھر سے گھوٹکی کی وڈیوز اور تصویروں میں الجھتی چلی گئی۔

دل نے مجھ پر تُف کی کہ تو پیغمبرﷺ کو اتنا بھی نہیں جانتی اے تنگ دل عورت!
فرض کر تجھ جیسے مسلمانوں کے رحم و کرم پر سندھ میں باقی رہ گئے یہ کمزور ہندو، مسلمان ریاست میں اپنی تباہی کی فریاد لے کر رحمت العالمین کے حضور جا کھڑے ہوں!
کیا وہ ان کی فریاد نہیں سنیں گے؟
کیا وہ انہیں جنت اور حوروں کے لالچی بھوکے بھیڑیوں کے حوالے کردیں گے؟
کیا انصاف کا فیصلہ وہ مسلمان بلوائیوں کے حق میں کریں گے؟

دل مضطرب ہوکر ہر دھڑکن پر کہتا رہا کہ نہیں۔ وہ ان ہندوؤں کو اپنے پاس بٹھائیں گے۔ ان کی سنیں گے۔ پانی پلائیں گے۔ تسلی دیں گے اور کہیں گے کہ میں ہوں نا تمہارا غمگسار۔ میں دنیا میں سب کے لیے آیا ہوں، صرف پاکستان کے مسلمانوں کے لیے نہیں۔

یوں کچھ لکھنے کی کوشش میں لکھ لکھ ڈیلیٹ کرتی رہی۔ الفاظ جیسے دامن چھڑا کر کھڑے ہوگئے کہ جا ہم نہیں بولتے!

اچانک جیسے شاہ سائیں (شاہ عبدالطیف بھٹائی) نے کان میں سرگوشی کی کہ،

لکھ،
‏ڈاکٹر ہوتچند مولچند گربخشانی اور
کلیان آڈوانی
سندھ کے دو ہندو عالم
رسالہ شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مشہور اور ابتدائی مرتب اور مستند شارح۔
دونوں نے رسالہ کی ترتیب اس بیت سے شروع کی ہے

اول اللہ علیم، اعلیٰ، عالم کا دھنی
قادر اپنی قدرت سے قائم ہے قدیم
والی، واحد، وحدھُ، رازق، رب رحیم
سب تعریف اسی برحق کی
وہی حمد اپنی حکمت کی
وہی کریم جس نے جوڑا یہ جہاں

ڈاکٹر گربخشانی کا انتقال سندھ میں ہوا اور کلیان آڈوانی پر تقسیم کے بعد سندھ کی زمین تنگ ہوئی اور وہ سندھ چھوڑ گئے۔ شاہ جو رسالو انہوں نے ممبئی میں مرتب کیا۔

شاہ جو رسالو کے کئی ابیات اپنی آفاقیت میں بھی نبی کریمﷺ اور اللہ سے اظہارِ عشق کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر گربخشانی اور کلیان آڈوانی نے ان ابیات میں شاہ سائیں کے عشقِ رسولﷺ کی تشریح براہِ راست کی ہے۔

مثلاً:

ڈاکٹر گربخشانی ایک بیت کی تشریح یوں کرتے ہیں

”جو دل اور زبان سے حضرت محمدﷺ پر ایمان لائیں گے، جو کہ تخلیقِ کائنات کا سبب ہیں، وہی بڑے مرتبے والے اور ہمیشہ رب کے حکم میں رہنے والے قرار پائیں گے۔ وہ کبھی گمراہی کی طرف راغب نہ ہوں گے“

15 ستمبر کی اس مضطرب رات مجھے دادی (دیدی) لیلاوتی ہرچندانی یاد آگئیں۔ سندھ کی مشہور ماہرِ تعلیم، سندھ کی مسلمان لڑکیوں کی تعلیم و شعور کے لیے جن کی علمی خدمات کسی احسان سے کم نہیں۔ دادی لیلا کو موسیقی پر بھی عبور تھا۔

میں پہلی بار جب ان سے ملی تو وہ تقریباً اسّی سال کی عمر میں تھیں۔

اس پہلی ملاقات میں، میں اس وقت دل تھام کر رہ گئی جب انہوں نے مجھے دونوں ہاتھ جوڑ کر اور سراپا عجز و انکسار بن کر اپنی لکھی ہوئی سندھی نعتیں گنگنا کر سنائیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی ملک میں انتہا پسندی اور سنگدلی نہیں آئی تھی۔
میں بھی عمر کے اس حصّے میں تھی جب انسان ابھی حیرت میں مبتلا ہوتا ہے۔

نعتیں سن کر میں نے حیرت سے کہا، آپ نعتیں بھی کہتی ہیں! ؟
مسکرا کر بولیں، کیوں رسول اللہﷺسے صرف مسلمان محبت کرسکتا ہے؟ ہم نہیں؟
میں چپ سی ہوکر رہ گئی۔
پھر محبت کے انہی معاملات پر بات کرتے ہوئے بولیں، تمہیں پتہ ہے میرے اکلوتے بیٹے ڈاکٹر پردیپ کو ڈاکو اٹھا لے گئے تھے اور تاوان میں بھاری رقم مانگ رہے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah