معصوم گیڈر اور عیار تیتر کی کہانی


تیتر انہیں آہستہ آہستہ کھانے سے دور لے گیا۔ گیدڑ نے موقع غنیمت جانا اور سارا کھانا چٹ کر گیا۔ یہ دیکھ کر تیتر نے لمبی اڑان بھری اور عورتوں کی نظروں سے اوجھل ہو کر گیدڑ کے پاس واپس آیا۔
”کیا اب تمہاری تسلی ہو گئی ہے؟ “ گیدڑ نے پوچھا۔

”دیکھو میں مانتا ہوں کہ تم نے مجھے بہت اچھا کھانا کھلایا ہے۔ مجھے بہت ہنسایا اور بہت رلایا ہے۔ لیکن دیکھو سچی بات یہ ہے کہ دوستی کی آخری قربانی دینا تمہارے بس سے باہر ہے۔ تم میری جان نہیں بچا سکتے“۔ گیدڑ بولا۔

”شاید یہ ممکن نہ ہو، میں کتنا چھوٹا سا اور کمزور ہوں۔ “ تیتر دکھ بھری آواز میں کہنے لگا ”اب شام پڑ رہی ہے۔ ہمیں اب دریا کے پار اپنے گھر واپس چلنا چاہیے۔ آگے پایاب پانی تک پہنچنے کے لئے بہت لمبا چکر کاٹنا پڑے گا۔ یہاں ایک مگرمچھ میرا دوست ہے۔ وہ ہمیں اپنی کمر پر بٹھا کر دریا پار کروا دے گا“۔

وہ دونوں دریا کے کنارے پہنچے اور مگرمچھ انہیں اپنی پشت پر بٹھا کر دریا پار کروانے پر ہنسی خوشی تیار ہو گیا۔ وہ دریا کے درمیان پہنچے تو مگرمچھ آہستہ آہستہ نیچے ہونا لگا۔
تیتر بولا ”مجھے لگتا ہے کہ مگرمچھ کی نیت میں فتور آ گیا ہے۔ کتنا برا ہو گا اگر وہ تمہیں پانی میں پھینک دے“۔

”صرف میرے لئے کیوں برا ہو گا؟ وہ تمہیں بھی تو پانی میں پھینکے گا“ گیدڑ نے کچھ پریشان ہو کر کہا۔
”بالکل بھی نہیں۔ دیکھو گیدڑ میاں، میرے پاس پر ہیں۔ میں اڑ کر دوسرے کنارے پر چلا جاؤں گا۔ تم اڑ نہیں سکتے“۔ تیتر نے اسے صورتحال کی نزاکت سے آگاہ کیا۔

گیدڑ یہ سن کر خوف سے کانپنے لگا۔ ادھر مگرمچھ نے بھوک سے بے تاب ہو کر آواز نکالی اور بولا ”میں واقعی بہت بھوکا ہوں اور تمہیں کچا چبا جاؤں گا“۔

گیدڑ کے اوسان خطا ہو گئے۔ کنارہ بہت دور تھا اور وہ مگرمچھ سے بچ کر وہاں نہیں جا سکتا تھا۔ لیکن تیتر بے فکری سے بولا ”ہمارے ساتھ چالاکی مت کرو میاں مگرمچھ۔ تم گیدڑ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ وہ اتنا بے وقوف نہیں ہے کہ مگرمچھ کے پاس آتے ہوئے اپنی جان ساتھ لیتا آتا۔ وہ اپنی جان کو اپنے گھر کی الماری میں تالے میں بند کر کے آیا ہے۔ “

”کیا یہ بات سچ ہے؟ “ مگرمچھ نے کچھ پریشان ہو کر کہا۔
”سو فیصد سچ ہے۔ تم سے کھانے کی کوشش کر کے دیکھ لو۔ تم اسے چبا چبا کر تھک جاؤ گے لیکن وہ ربڑ کی طرح ویسا کا ویسا ہی رہے گا جیسا ہے اور تم اسے نگل نہیں سکو گے“۔

”میری قسمت ہی خراب ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ مجھے کتنا لذیذ گیدڑ کھانے کو ملے گا مگر یہ اپنی جان گھر چھوڑ کر آیا ہے۔ “ مگرمچھ کا دل ٹوٹ گیا۔ اس نے دونوں کو دوسرے کنارے پر اتارا اور ایسے شکار کی تلاش میں نکل گیا جسے وہ کھا سکے۔

”کیا اب تم مطمئن ہو گئے ہو؟ دوستی کی وہ تمام شرائط پوری ہو گئی ہیں جو تم نے بتائی تھیں“۔ تیتر چہچہایا۔

”تیتر میاں تم نے مجھے خوب ہنسایا بھی، خوب رلایا بھی، خوب کھلایا بھی اور میری جان بھی بچائی۔ لیکن اب میں مرتے مرتے بچا ہوں تو مجھے خیال آیا ہے کہ ایسے چالاک دوست سے دور رہنے میں ہی میری عافیت ہے۔ خداحافظ عیار تیتر۔ “ اس کے بعد گیدڑ زندگی بھر تیتر کے قریب نہ آیا۔

نتیجہ: عیار کی دوستی وقتی فائدے تو پہنچا دیتی ہے، مگر ایسا وقت بھی لے آتی ہے کہ بندہ خود کو گہرے پانی میں ڈوبتا پائے اور کوئی بچانے والا نہ ہو۔ معصوم گیدڑ کو یہ دھوکے کھا کر ہی سمجھ آتی ہے کہ اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلا گیا ہے اور پھر وہ عیار تیتر سے دور بھاگتا ہے اور تیتر کسی نئے دوست کو پھنسا لیتا ہے۔

نتیجہ: جب کوئی شخص اپنے سے زیادہ چالاک کو دوست بنا لیتا ہے تو شروع شروع میں تو بہت ہنستا ہے، خوب کھانے پینے کو ملتا ہے، لیکن حکم عدولی پر رونا بھی پڑتا ہے اور کسی بھی وقت مگرمچھ اسے کھا سکتا ہے۔
ایک قدیم دیسی حکایت۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar