کیا اب بھی کوئی کسر باقی رہ گئی ہے؟


پاکستان کی سیاست میں پچھلی تین دہائیوں سے کلیدی کردار کی حامل مہاجر قومی موومنٹ، پھر متحدہ قومی موومنٹ اپنے قیام سے لے کر آج تک متنازعہ رہی ہے۔ الطاف حسین پاکستان کی سیاست کا وہ کردار ہے جس نے پاکستان کی سیاست کو نئے رموز سے آشنا کیا۔ یہ رموز کسی مثبت سیاست یا عوامی بھلائی کے نہیں تھے بلکہ سیاست میں دہشتگردی، لوٹ مار، جلاؤ گھیراؤ، بوری بند لاشیں، زبردستی چندوں، بھتوں، فطرانوں کی وصولی کے رموز تھے۔ عام آدمی سے لے کر کاروباری، سیاسی سماجی خدمات انجام دینے والا کوئی بھی الطاف حسین کی سیاست اور دہشتگردی شرپسندی سے محفوظ نہیں رہ سکا۔

ایم کیو ایم نے کراچی یونیورسٹی سے آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ الطاف حسین، عظیم احمد طارق اور ڈاکٹر عمران فاروق اس کے بانیان میں سے تھے۔ 1984 میں الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں نے ملک کے سیاسی دھارے میں مہاجر کاز اور محرومیوں کو جواز بناکر مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے باقاعدہ ایک سیاسی جماعت کی بنیاد ڈالی جس نے ملک کو ایک نئے سیاسی کلچر سے روشناس کروایا جو اس سے پہلے پاکستانی سیاست میں نہ ہونے کے برابر تھا۔

الطاف حسین اور ان کے رفقاء کار نے مہاجر قومی موومنٹ بنا کر سندھ میں بسنے والے، اردو بولنے والوں کو یہ احساس دلایا کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک آپ کے ساتھ نا انصافی ہوتی آئی ہے، آپ کے آباؤاجداد نے پاکستان کی بنیاد ڈالی آپ کی وجہ سے آج پاکستان معرض وجود میں آیا ہے لیکن بانیانِ پاکستان کی اولادیں ہی بنیادی انسانی اخلاقی جمہوری اسلامی حقوق سے محروم ہیں۔ انہوں نے قومیت، زبان، رنگ و نسل کی سیاست کی بنیاد ڈال کر کئی دہائیوں تک ملکی سیاست کی چولیں ہلا ڈالیں، مہاجر کاز اور محرومیوں کے نام پر بربریت وحشت کا ایسا ننگا ناچ ناچا کہ اپنے پرائے سب اس کا شکار ہوئے۔

پاکستان کی عوام یا ایم کیو ایم کے مخالفین اور اب وہ لوگ بھی جو تین دہائیوں سے ان کو ووٹ دیتے ان کے ساتھ کھڑے ہوتے آئے ہیں۔ ہمیشہ الطاف حسین اور ان کے ٹولے کو دہشتگردی، بھتہ خوری، ہنگامہ آرائی، ہڑتالوں، جلاؤ گھیراؤ کا ذمے دار قرار دیتے آئے۔

ورطۂ حیرت میں ڈال دینے والا واقعہ ایک معمولی سے مالی سے ڈائریکٹر جنرل پارکس کے عہدے پر پہنچنے والے دہشتگردوں کے ایک معمولی سے گماشتے کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری سے اہلِ پاکستان اور دنیا کے سامنے ایکسپوز ہوا۔ نیب نے جب لیاقت قائم خانی کو گرفتار کیا اور پھر اس کے کارناموں، جن کی انجام دہی پہ اسے محترم سابقہ گورنر جناب عشرت العباد صاحب دوبار پاکستان کے اعلیٰ سول اعزازات کے لئے نامزد کرکے اور دلوا چکے ہیں، کو ملک بھر کے تمام ٹی وی چینلوں کے ذریعے پورے ملک کی عوام کے سامنے رکھا تو ہر کوئی انگشتِ بدنداں ہو گیا۔ خود نیب کی چھاپہ مار ٹیم بھی حیرت و استعجاب کے سمندر میں غوطہ زن ہوگئی کہ مالی سے ڈی جی کے عہدے تک پہنچنے والے کسی عام سے سرکاری کارندے کا بھی ایسا شہنشاہوں جیسا محل، بادشاہوں سا رہن سہن ہو سکتا ہے۔

اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کرپشن، یہ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی وسائل کی لوٹ مار ایک دن ایک سال یا پچھلے چار پانچ سال میں ہوئی ہوگی؟ تو اس کا جواب ہے ہرگز نہیں۔ مہاجر قوم کی محرومیوں کا نعرہ لگا کر کاروبارِ سیاست میں آنے والے الطافی ٹولے نے پہلے قومیت، زبان کے نام پر ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے مہاجرین کے انسانی، شہری، سیاسی حقوق کی محرومیوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر اپنی سیاسی دکان کھولی جو آہستہ آہستہ باقاعدہ ایک منافع بخش کمپنی میں تبدیل ہوگئی۔

الطاف حسین کی لندن منتقلی اور سیکریٹیریٹ کے قیام اور اس کے نظم و نسق کو چلانے کے لئے ہر ماہ پاکستان سے لاکھوں پاؤنڈز لندن بھیجے جاتے رہے اور یہ سلسلہ قریب پچیس سالوں تک چلتا رہا، اس دوران کسی ایجنسی، کسی اینٹی منی لانڈرنگ واچ ڈاگ ادارے کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس ملک دشمن سلسلے کو روک لگا سکے یا پھر یہ مان لیا جائے کہ یہ سب کچھ دیکھتے بھالتے دانستہ طور پر تمام اداروں کی منشاء اور مرضی سے ہوتا رہا۔

22 اگست کی وطن دشمن تقریر کے بعد بھی شاید ہمارے مقتدر ادارے ہوش کے ناخن نہ لیتے اور اس دہشتگرد گروہ کو اپنے انجانے مفادات کے لئے استعمال ہی کرتے رہتے مگر شدید ترین عوامی ردعمل اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں مچنے والے شور نے اس سلسلے کو بریک لگا دیے۔ اسی دوران اربوں کھربوں کی جائیدادیں بنانے والے ایم کیو ایم کے اہم رہنما ایک بعد ایک ملک سے راہِ فرار اختیار کرتے بیرونِ ملک جلا وطنی اختیار کرتے گئے۔

مارچ 2015 میں ایم کیو ایم مرکز میں مارا جانے والا چھاپا ماضی میں لگنے والے چھاپوں سے مختلف تھا۔ چھاپے میں ہزاروں کی تعداد میں انتہائی مہلک آتشیں اسلحہ، گولا بارود، مختلف دستاویزات، نقشہ جات برآمد ہوئے جبکہ قتل و غارتگری، دہشتگردی و لوٹ مار میں ملوث درجنوں خونی دہشتگرد بھی گرفتار ہوئے۔ اس واقعے کے بعد عقل و شعور رکھنے والے متحدہ کے باخبر مہاجروں کے حقوق کے چیمپیئن رہنما ایک ایک کرکے ملک چھوڑتے گئے کیونکہ وہ سمجھ چکے تھے کہ طاقت و جبر، ظلم و ستم، خوف و دہشت کے جس راج کی وہ مالکی کرتے رہے تھے اور گلیوں سے چوراہوں سے بڑے بڑے پرتعیش محلات، اربوں کھربوں کے کاروبار کے مالکان بن چکے تھے وہ دور اب اختتام پذیر ہونے جا رہا ہے لہٰذا بہتر ہے مہاجر حقوق سے دستبردار ہوکے اس ملک سے ہی غائب ہو جاتے ہیں۔

ایم کیو ایم کی سیاست کا خاصہ خوف، دہشت اور بلیک میلنگ رہا ہے۔ مہاجر کارڈ استعمال کرکے انہوں نے اپنے ووٹروں، ہمدردوں، چاہنے والوں، کارکنوں سب کو دھوکا دیا۔ اس مقصد کے حصول میں جو لوگ حقیقت میں الطاف حسین اور اس کے ساتھیوں کو قوم کا مسیحا سمجھ کر ان کے پیچھے چلے اور ہزاروں بے گناہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ان کے لواحقین آج بھی کسمپرسی کی حالت میں زندگیاں گزارنے پہ مجبور ہیں جبکہ مسیحا ایک ایک دو دو کمروں کے فلیٹس اور بوسیدہ سرکاری کوارٹروں سے عظیم الشان محلات اور بنگلوں کے مالک بن چکے ہیں۔

اس وقت بھی میئر کراچی وسیم اختر سے لے کر سابقہ میئر حیدرآباد کنور نوید جمیل تک، خالد مقبول صدیقی سے لے کر رؤف و عادل صدیقی تک، فاروق ستار سے لے کر فیصل سبزواری تک، محمد حسین سے لے کر خواجہ اظہار الحسن تک اور عامر خان سے لے کر ایم کیو ایم کے ہر دھڑے کے چھوٹے بڑے اہم ذمے دار تک اگر ایمانداری دیانتداری سے ہمارے وزیراعظم عمران خان صاحب کے ان نفیس لوگوں کے خلاف انکوائری ہو تو شاید پاکستان کی بہتر برس کی تاریخ کی سب سے بڑی مالی کرپشن کے ہوشربا راز پورے ملک پوری دنیا کے سامنے کھل کر آجائیں۔

ایک چھوٹے سے مالی لیاقت قائم خانی کی گرفتاری سے شروع ہوئی اس مہا کرپشن کی غضب کہانی کو یہاں تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیے ایم کیو ایم کے پاکستان میں موجود ان تمام لوگوں کو فی الفور گرفتار کرنا چاہیے جن کے تانے بانے لیاقت قائم خانی اور اس جیسے دیگر انگنت لیاقت قائم خانیوں سے ملتے ہیں۔ 1991 سے لے کر 2016 تک ایم کیو ایم سیکریٹیریٹ کو بھیجے جانے والے کھربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی بھی فوری طور پر تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ پاکستانی عوام اور خصوصاً سندھ کے اردو بولنے شہریوں کی بھی اپنے مسیحاؤں کا بھیانک و مکروہ چہروں اور کرداروں سے آشنائی ہو سکے کہ کس طرح ان کے حقوق، ان کی محرومیوں کو جواز بناکر ان کے اعتماد ان کے پیار و عقیدت کو دھوکا دیا گیا اور صرف اپنے مذموم و مجرمانہ مقاصد و مفادات کو ملحوظ رکھا گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).