بچوں کے معاملے میں ہماری بنیادی لاپرواہی


پاکستان کے نونہال اپنے ہی معاشرے میں اپنوں ہی کے درمیان غیر محفوظ زندگی گزار رہے ہیں۔ بچوں کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ساحل کی جانب سے بچوں پر ہونے والے جنسی تشدد کی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ جس کے مطابق پاکستان میں سال 2019 کے دوران اب تک تیرہ سو چار بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ جنسی تشدد کا نشانہ بننے والوں میں سات سو انتیس بچیاں جبکہ پانچ سو 75 بچے شامل ہیں۔ اس حساب سے رواں برس روزانہ 7 سے زائد بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔ اسی طرح کم عمری میں شادی کے چالیس واقعات پیش آئے جبکہ ایک بچی کو ونی بھی کیا گیا۔ ۔ 12 بچوں اور بچیوں کو مدرسے میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

رواں برس جنسی تشدد کا شکار بننے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد پنجاب کی ہے۔ پنجاب میں چھ سو باون سندھ میں چار سو اٹھاون بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بلوچستان میں 32 جبکہ اسلام آباد میں نوے بچوں کو جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔ خیبرپختونخوا میں اکیاون، آزاد کشمیر میں اٹھارہ اور گلگت بلتستان میں تین بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ گیارہ سو پینتالیس واقعات پولیس میں رپورٹ ہوئے۔ 38 واقعات پولیس نے رپورٹ نہ کیے۔ رواں برس صوبائی دارالحکومت لاہور میں پچاس بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔

حال ہی میں لاہور کے نزدیک چونیاں میں چار بچوں کی لاشیں ملی ہیں جنہیں زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک بچے کا بیان منظر عام پر آیا ہے کہ کس طرح ایک سال تک اسے محلے کے دو اوباش نوجوان جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے اور وہ بنتا رہا۔ چونیاں اور قصور میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر حساس اداروں کی جانب سے انہتائی سختی کے ساتھ چھان بین کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ علاقے اس حوالے سے خاصے بدنام ہیں۔ یہاں پر نیٹ کی ڈاون اور اپ لوڈنگ کی شرح چیک کریں۔

یہ علاقے مسلسل ایک ہی کام کے لیے استعمال ہو رہے ہیں اور قانون خاموش ہے۔ جس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ پاکستان کے اس گینگ آف واسع پور کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے جس کے زیر سایہ یہاں گناہ اور جرائم کی ایسی منڈیاں آباد ہیں جہاں انسانیت شرم سے داخل ہی نہیں ہو سکتی۔ میں نہیں مان سکتی کہ پاکستان کے حساس ادارے اور صحافی سچ سے واقف نہ ہوں۔ زینب کا کیس ہوا تو سوشل میڈیا پر اٹھنے والی آواز کی وجہ سے ادارے حرکت میں آئے مگر جرم تاحال آزاد اور جرم زروں پر ہے۔

یہ تو مخصوص علاقے ہیں جہاں پر ایک تاثر یہ بھی ہے کہ جو واقعات رپورٹ نہیں ہو رہے وہاں والدین کی رضامندی سے سب کچھ ہو رہا ہے وجہ ہے خاموشی کی نیلی اور پیلی قیمت۔ اس لیے ان جرائم کا عادی جب مخصوص مقام سے باہر منہ مارتا ہے تو وہ سامنے آ جاتا ہے ورنہ تو ڈارک ویب کے لیے بچوں کی گندی فلموں اور ٹوٹوں کا دھندہ یہاں عروج پر ہے۔

تاہم اس کے علاوہ یہ جو عام مقامات پر بچوں اور بچیوں کے ساتھ غلط کاریاں ہو رہی ہیں یہاں پر والدین اور گھر والوں کی لاپرواہی پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔ باہر کی دنیا میں جب ایک ہنستا کھیلتا بچہ خاموش رہنے لگے تو استاد اسے مانیٹر کرتا ہے۔ پھر اسے سکول کونسلر کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ جہاں وہ اپنی مخصوص پیشہ ورانہ مہارت سے بچوں کے خوف کی وجہ جان کر سکول انتظامیہ کو اطلاع دیتا ہے اور سکول والے پولیس کو اور پھر پولیس ہی آگے آ کر سارے معالات کی چھان بین کرتی ہے اور اگر والدین بچے کے معاملے میں غفلت اور لاپرواہی کے مرتکب پائے گئے تو ریاست بچے کو اپنی تحویل میں لے لیتی ہے اور مجرم تو گرفتار ہو ہی جاتا ہے۔

مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے سکول تو بہت دور کی بات ہے، گھر بیٹھی ماں اور دیگر رشتے دار بھی اپنے بچے کے معاملے میں غفلت اور لاپرواہی کا انتہائی درجے کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بچہ خاموش رہنے لگا ہے، کھانے پینے کی روٹین بھی متاثر رہنے لگی ہے۔ زیادہ تر گھر میں رہتا ہے۔ بات بات پر خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ سکول، مددسے یا کسی کے گھر جانے یا گھر میں ہی کسی کو دیکھ کر وہاں سے اٹھ جاتا ہے یا آپ کے پاس دبک کر بیٹھ جاتا ہے تو اس کے رویے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بچہ اپنی حرکات و سکنات سے خود بتا رہا ہے کہ اس کے ساتھ غلط ہو چکا ہے یا ہو رہا ہے مگر اس موقع پر گھر والوں کی خاموشی ہی وہ لاپرواہی ہے جو حادثے کو جنم دے دیتی ہے۔

آپ کا بچہ آپ کی توجہ اور اعتماد کا منتظر رہتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم سکول سے واپس آتے تھے تو امی سارے دن کی ڈائری لیتی تھیں، ذرا ذرا سی بات پوچھتی تھیں۔ شام کو صحن میں سفید گلابوں کی بیل کے نیچے چارپائی پر بیٹھے ابو جی بھی باتوں باتوں میں ایک ایک بات پوچھتے تھے۔ اب سمجھ آتا ہے کہ امی اور ابو ہمارے بیان چیک کرتے تھے کہ کہیں ہم کوئی جھوٹ تو نہیں بول رہے۔ پھر ہماری یہ عادت ایسی بنی کہ آج تک امی سے شئیر نہ کرنے والی باتیں بھی شئیر کر جاتے ہیں کیونکہ ابو کو دنیا سے رخصت ہوئے 12 سال گزر گئے۔

یہ رویہ مجھے آج کل کے والدین میں نظر نہیں آتا۔ آج کی ماں ورکنگ ویمن ہے تو ہماری فیملی کی ہوم انڈسٹری میں امی گھر بیٹھ کر کام کرتی تھیں یعنی وہ گھریلو ورکر تھیں مگر بچوں کے معاملے میں سب کچھ پس پشت ڈال دیا تھا۔ مگر آج کل کے والدین کے پاس سوشل میڈیا ہے اور ایک عدد ریمورٹ کنٹرول۔ ہاتھ اور آنکھیں سارا دن بزی۔ تو بچوں کو سمجھنے اور ان کی بدلتی کیفیات کا مشاہدہ کرنے کی فرصت کس کے پاس ہے۔ والدین کی یہی لاپرواہی انہیں خون کے آنسو رونے پر مجبور کر دیتی ہے۔

آج گھر کے ہر فرد کے ہاتھوں میں اپنی ایک دنیا ہے جس میں گھر کے چھوٹے داخل نہیں ہو سکتے اور ان چھوٹوں کی زندگی میں پھر جو داخل ہوتا ہے اس کا قصور ہم معاشرے اور عورت کے لباس پر لگاتے ہیں کہ شیطان جاگ اٹھا تھا وغیرہ وغیرہ۔ اپنی کوتاہیوں کی طرف کسی کی نظر نہیں جاتی۔ اپنے بچوں کو بچانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی ذات کا اعتماد اور محبت دیجئے۔ آپ ہی اس کے دوست ہیں اور آپ ہی اس کے دشمن، یہ فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).