بنی گالہ کے بھوت


(تصویر کہانی)

میں 1972 ماڈل کی ڈاٹسن میں ایک سنسان راستے پر گامزن تھا۔ رات کی سیاہی صبح کے اجالے سے بغل گیر ہو رہی تھی۔ سردی کی شدت ہاتھوں پیروں کا مزاج پوچھ رہی تھی۔ ہر سو دھندلکا پھیلا ہوا تھا۔ سڑک رات کی اوس کے باعث بھیگی ہوئی تھی۔ اچانک گاڑی نے جھٹکے کھانے شروع کر دیے۔ میری نظر پٹرول کی مقدار بتانے والی سوئی پر پڑی تو وہ بالکل نیچے لگ چکی تھی۔ میں نے ایک طویل سانس لیا اور نظریں سڑک پر جما دیں۔ کچھ دور چل کر گاڑی ایک دھچکے سے بند ہو گئی۔ وہ ایک ایسی سنسان سڑک تھی جس کے اطراف درختوں کا سلسلہ دور تک چلا گیا تھا۔

میں ابھی گاڑی میں بیٹھا سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کیا جائے تو اتنے میں میری غیر ارادی طور نظر ونڈ اسکرین کے پار اٹھ گئی۔ دھند کے پار فضا میں سیاہ دھبے دکھائی دے رہے تھے جو تیزی سے واضح ہوتے چلے جا رہے تھے۔ میں نے اپنی آنکھوں کو زور زور سے ملا اور ایک بار پھر ونڈ اسکرین کے پار آنکھیں پھاڑ دیں۔ وہی منظر تھا بلکہ اب کچھ ہیولے واضح ہوتے جا رہے تھے۔ میرے ہوش اڑ گئے جب میں نے دیکھا کہ وہ فضا میں اڑتے انسانی وجود تھے۔

میں بوکھلا کر گاڑی سے باہر نکل آیا اور دروازے کا سہارا لے کر کھڑا ہوگیا۔ وہ میرا وہم نہیں تھا۔ وہ واقعی ہوا میں تیرتے ہوئے انسان تھے۔ ایک لمحے کے لیے میرے دل میں خیال آیا کہ شاید کسی متبرک ہستی کا نزول ہو گیا۔ لیکن اتنی ساری متبرک ہستیاں دیکھ کر میری عقل چکرا گئی۔ یہ کوئی اور ہی چکر تھا۔

میرے دیکھتے ہی دیکھتے پہلا شخص سڑک پراتر آیا۔ میری گھگھی بندھ چکی تھی اور دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں شاید روئے زمین پر پہلا انسان تھا جو ہوا میں اڑتے ہوئے انسانوں کو اپنے سامنے دیکھ رہا تھا۔ یکے بعد دیگرے تمام انسان سڑک پر لینڈ کر گئے۔ یہ چالیس کے لگ بھگ تھے۔ ان سب کے ہاتھوں میں کچھ تھا۔ میں نے غور سے دیکھا تو وہ ٹین کے ڈبے تھے۔

سب سے پہلے سڑک پر اترنے والا انسان مسکرایا۔ نہایت دلکش مسکراہٹ تھی۔ اس کے دانت موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ چہرے سے نور کی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔ پھر وہ میری طرف آہستگی سے بڑھا۔ یوں لگا جیسے وہ ہوا میں تیرتا ہوا میری طرف بڑھا ہو۔ اس کا لبادہ ہوا میں ہلکورے لے رہا تھا۔ میں بوکھلا کر پیچھے ہٹا تو اس نے مجھے نرمی سے اپنی جگہ کھڑے رہنے کا اشارہ کیا۔ میں جہاں تھا وہیں رک گیا۔ وہ ہوا میں تیرتا ہوا میری گاڑی کے پاس پہنچا اور پٹرول ٹینک کے ڈھکن پر ہتھیلی رکھ دی۔ ڈھکن کھل گیا۔

میں آنکھیں پھاڑے حیرت سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ میری گاڑی کے پٹرول ٹینک کا ڈھکن تو چابی سے بھی بہت مشکل سے کھلتا تھا مگر اس پراسرار شخص نے ایک سیکنڈ میں ہتھیلی رکھ کر اسے کھول لیا تھا۔ پھر اس شخص نے اپنے لبادے میں ہاتھ ڈال کر ایک ربڑ کا چھوٹا سا پائپ نکالا۔ میں خاموشی سے دیکھتا رہا۔ اس نے پائپ کا ایک سرا ٹین کے ڈبے میں داخل کر دیا اور دوسرے سرے کو اپنے ہونٹوں میں دبا لیا۔ پھر اس نے زور کا سانس جو کھینچا تو ٹین کے ڈبے میں سے کوئی سیال شے پائپ میں داخل ہوئی۔ اس نے پھرتی سے پائپ کا سرا ہونٹوں سے نکال کر گاڑی کی پٹرول کی ٹینکی میں داخل کر دیا۔

ساتھ ہی میرے نتھنوں میں پٹرول کی تیز بو گھستی چلی گئی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ پراسرار شخص میری گاڑی میں پٹرول ڈال رہا تھا۔ جب اس کا ٹین کا ڈبہ خالی ہو گیا تو اس نے اپنے پیچھے آنے والے دوسرے شخص کو اشارہ کیا۔ پھر اس نے پٹرول میری گاڑی میں ڈالنا شروع کیا۔ ایک کے بعد ایک شخص یہ عمل دوہراتا گیا یہاں تک کہ میری گاڑی کی پٹرول کی ٹینکی مکمل طور پر بھر گئی۔ میں بھی شکر گزاری کے احساسات سے پوری طرح بھر چکا تھا۔

میں نے سب سے پہلے والے شخص کو پٹرول کی قیمت ادا کرنا چاہی لیکن اس نے مسکراتے ہوئے انکار کر دیا۔ میں سمجھ گیا کہ رب عظیم نے اپنے گناہ گار بندے کی مشکل آسان کرنے کے لیے فرشتے اتار دیے ہیں۔ یہی سوال میں نے اس پراسرار شخص سے کیا کہ کیا واقعی وہ سب رب عظیم کی جانب سے روانہ کیے ہوئے فرشتے ہیں۔

وہ مسکرایا اور نفی میں سر ہلا دیا۔ پھر نہایت شیریں لہجے میں گویا ہوا۔ ”ہم بنی گالہ سے خاتون اول کے حکم پر اپنے ڈائی ہارڈ سپورٹر کی مشکل آسان کرنے آئے ہیں۔ یہ نیا پاکستان ہے۔ یہاں کسی کو کوئی بھی تکلیف نہیں پہنچنے دی جائے گی۔ “ یہ کہتے ہی وہ تمام چالیس کے چالیس وجود تیزی سے ہوا میں بلند ہوتے چلے گئے اور کچھ ہی دیر میں نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔

میں نے کانپتے ہونٹوں اور جذبات سے مغلوب رندھی ہوئی آواز میں تبدیلی کا نعرہ لگایا اور گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کر دی۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad