ایوان غصّہ ور کا کربناک مقدر


مترجم : ڈاکٹر مجاہد مرزا

زار ایوان چہارم کو، جنہوں نے سولہویں صدی کے وسط میں روس کی باگ ڈور سنبھالی تھی، آج لوگ بلا وجہ ”ایوان غصہ ور“ کا نام نہیں دیتے۔ روس کے اس اولین زار، کیونکہ ان سے پہلے روس راجواڑوں میں بٹا ہوا تھا، کے بارے میں یکساں آراء نہیں ہیں۔ ایک جانب تو وہ روس کی سرحدیں وسیع کرنے میں سپھل ہوئے تھے اور جنگ پہ مائل ہمسایوں کو مجبور کیا تھا کہ ان کے مفادات کا پاس کریں، دوسری جانب اس بادشاہ کا ناقابل قیاس خاص طور پر عالم جذبات میں مزاج اور ان کا دشمنوں کی جانب سفاکانہ رویہ، چاہے وہ حقیقتاً ایسا ہوتا تھا یا سوچا سمجھا، دربار کو لرزہ بر اندام رکھتا تھا۔

ایوان چہارم نے بہت سے لوگوں کو موت کی گھاٹی میں دھکیلا تھا جو آج لوگوں کے لیے ہیبتناک ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ بعد میں مورخین نے حساب کیا تھا کہ ایوان غصہ ور نے اپنے پورے چالیس سالہ دور میں جتنے لوگوں کو موت سے ہمکنار کیا تھا وہ مثال کے طور پر پیرس کی شب وار”فولومیو“ میں مارے جانے والوں کی تعداد سے کہیں کم تھی اور یہ افسوسناک رات بھی 1572 کی ہی ایک رات تھی، جس عہد میں ایوان چہارم ماسکو میں تخت پہ براجمان تھے۔ تب فرانس کے بادشاہ نے ایک ہی رات میں اپنی رعایا کے تیس ہزار افراد کو تہہ تیغ کرنے کا حکم صادر کر دیا تھا۔ انہیں کسی نے ”غصہ ور“ بادشاہ کے لقب سے نہیں یاد کیا۔ خیر اس وقت یہ موضوع نہیں ہے۔

ایوان چہارم آٹھ برس کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے، ان کے نام پر نوابّین حکم چلاتے رہے تھے۔ ننھے زار کی تاجپوشی کی رسم تک ادا نہیں کی گئی تھی۔ بعد میں ایوان نے یاد کیا تھا کہ ان کی کسی بھی شے تک رسائی نہیں تھی، نہ کھانے پینے کی اشیاء تک اور نہ ہی لباس تک۔ خیال کیا جاتا ہے کہ تذلیل اور خوف نے ہی اس کمسن بادشاہ کو بعد میں مطلق العنان اور خودپسند کر دیا تھا۔

زار ایوان کی تاجپوشی سولہ برس کی عمر میں جنوری 1547 میں ہوئی تھی۔ فروری میں انہوں نے کم گو اور فرمانبردار اناستاسیا سے بیاہ رچا لیا تھا۔ ان ہی دنوں کم عمر بادشاہ کو اپنے خلاف سازش کیے جانے کا گمان ہو گیا تھا۔ آج یہ کہنا دشوار ہے آیا ایسی کوئی سازش تھی بھی یا نہیں۔ بہر حال بہت سے سازشیوں کو، چاہے وہ سازش میں شامل تھے یا بادشاہ کے خیال میں ہو سکتے تھے، موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ اپنے نوجوان شوہر کے سفّاک رویے نے ملکہ کو خوفزدہ کر دیا تھا۔

انہوں نے اپنی محبت اور توجہ سے ان کا دل نرم کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس میں ان کی مدد ایک خوفناک آفت نے کی تھی، آگ لگ جانے سے ماسکو کا اکثر حصہ راکھ میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اس المیے کے بعد لوگوں کی بیچارگی کے باعث زار کا مزاج خاصی حد تک نرم پڑ گیا تھا۔ روس تیرہ برس خوش و خرم رہا تھا۔ پھر اچانک اناستاسیا کی موت واقع ہو گئی تھی۔ ایسا کیسے ہوا؟ کسی مرض کے باعث یا کسی المناک حادثے کی وجہ سے لیکن ایوان کے اندر کی آگ بھڑک چکی تھی، جو بجھائے جانے لائق نہیں تھی۔ موت کی سزائیں دینے کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا تھا۔ بادشاہ کی خون آشام حالت پہ قابو پانا کسی کے بس میں نہ رہا تھا۔ ایوان نے ظلم و بربریت کی انتہا کر دی تھی۔

اناستاسیا کے بعد ان کی چھ اور بیویاں اور لاتعداد کنیزیں ہوئیں لیکن کوئی بھی زار کی پہلی اور آخری محبت کی متبادل نہ بن پائی تھی۔
ایوان کے غیض آلود مقدر کا سایہ ان کی بیویوں پہ بھی پڑا تھا۔ دوسری بیوی نوابزادی ماریا پر اسرار طور پر انتقال کر گئیں۔ تیسری بیوی مارتھا شادی کے بعد صرف پندرہ روز جی پائیں۔ آنا نام کی دو بیویوں کو بادشاہ کے حکم پر زبردستی راہبائیں بنا دیا گیا تھا۔ اشرافیہ کے ایک قدیم خاندان دولگا روکی سے تعلق رکھنے والی ماریا کو بیاہ کے اگلے ہی بادشاہ نے یہ الزام لگا کر کہ وہ بیاہ کے وقت ناکتخدا نہیں تھی، ڈبو کر مارنے کا حکم دے دیا تھا۔

1580 میں ایوان غصہ ور کی آخری بیوی نے، جو ماریا نام کی تیسری بیوی تھی، بادشاہ کے بچے کو جنم دیا تھا۔ جلد ہی زار ان سے متعلق بھی سردمہر ہو گئے تھے اور بیوی کو بچے سمیت شہر اگ لیچ بھیج دیا تھا۔ ایوان غصہ ور کی اولاد بھی نامراد رہی تھی۔ پیاری بیوی اناستاسیا کے بطن سے جنم لینے والی تین بیٹیاں بچپن میں ہی دنیا سے اٹھ گئی تھیں، ایک چھوٹا بچہ دریا میں تب گر کے ڈوب مرا تھا جب بچہ دودھ پلانے والی آیا کے ہاتھوں سے ”اتفاقاً“ چھوٹ کے پانی میں جا گرا تھا۔

دوسرا بیٹا جو بادشاہ کا پیارا اور تخت کا جانشین تھا، تب باپ کے ہاتھوں مارا گیا جب اس نے والد سے جھگڑا کیا تھا اور زار نے اس کے سر پہ لوہے کا شاہی لٹھ دے مارا تھا۔ اس المناک واقعے کے باعث زار عمر بھر حالت تاسّف میں رہے تھے۔ کمسن شہزادہ دمتری، جو زار ایوان غصہ ور کی آخری بیوی کے بطن سے تھا، خود زار کی موت کے بعد المناک موت سے دوچار ہو گیا تھا۔ ان کے بہت سے بچوں میں سے اگر کوئی جی سکا تھا تو وہ مریض اور ملک چلانے کا نا اہل فیودر تھا لیکن آخر کار 1584 میں والد کی رحلت کے بعد اسے ہی تاج شاہی پہنایا گیا تھا۔

فیودر کے کوئی وارث پیدا نہ ہوا تھا۔ یوں داستانی حد تک نامور نواب ریوریک کی نسل کی بادشاہت انجام کو پہنچی تھی۔ اس کے بعد روس پندرہ سال تک بلووں اور فسادات کی زد میں رہا تھا۔ جنگیں ہوئی تھیں اور سرزمین کے حصے علیحدہ ہوئے تھے۔ تاریخ میں اس عہد کو بلووں کے عہد کا ہی نام دیا گیا ہے۔ کیا اسے ایوان غصہ ور کی غلطیوں کا خمیازہ سمجھا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب مورخ متضاد دیتے ہیں۔ البتہ ایک حقیقت واضح ہے کہ ایوان غصہ ور نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اپنے قریبی حلقوں کو اذیت میں مبتلا کرنے میں بسر کیا تھا۔ ممکن ہے تبھی جابر زار کا مقدر تاریک ہو گیا کہ ان کے بعد ان کے تخت کا کوئی والی وارث نہ رہ پایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).