بول کہ لب آزاد ہیں تیرے


گذشتہ ہفتے ہم سب پے ایک کالم پڑھنے کو ملا جس میں ایک لکھاری نے پا کستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم کارکن گلالئی اسماعیل کے حوالیسے ایک کالم لکھا اور اس کے پاکستان سے امریکہ پہنچنے کے حوالے سے مختلف قسم کے سوالات اٹھائے تھے اور گلالئی اسماعیل سے اس حوالے سے جوابات مانگے تھے۔

اس کالم کے ردعمل میں ہمارے ایک دوست نے سوشل میڈیا پے ہم سب کے ایڈیٹر اور دوسرے ذمے داران کے اور ان کے فیملیز کے خلاف یک نہ ختم ہونے والا ٹارزن کی کہانی جیسے عنوان کے حساب سے لکھنا شروع کردیا ہے۔

میں ایک بات واضع کروں کہ نہ میں آج تک نہ کبھی ہم سب کے کسی ذمے دار سے ملا ہوں اور نہ ہی کسی کو جانتا ہوں اور نہ ہی کسی سے فون پے رابطہ ہوا تھا اور نہ ہے مگر جب میں نے اپنا پہلا کالم بخشو سردار کے حوالے سے لکھا تو شایع ہوگیا حالانکہ ابھی بھی پاکستان میں عمران خان کی حکومت ہے اور وھاں کی میڈیا کو کن کن مشکلات درپیش ہیں سب ہمارے سامنے ہے۔

پھر میں نے ایک ایسے موضوع پے ایک کالم لکھا جس کو پاکستان میں انتہائی حساس سمجھا جاتا بے یعنی بلوچستان کے مسنگ پرسن جب میں ماما قدیر بلوچ کے حوالے سے انٹریو کی تفصیل لکھا اور بھیجا تو ماسوائے ایڈلائن فوٹو کے ایڈیٹر نے سب کچھ چھاپ دیا۔

مطلب کے پاکستان میں ہوتے ہوئے پاکستان کے انٹرنیٹ سرور یعنی “ڈاٹ کام ڈاٹ پی کے” سے ایسے حساس موضوع پے کالم کا پبلش ہونا میرے لئے ایک حیرت کی بات تھی اور اسی حیرت اور تعجب نے مجھے مجبور کیا اور میں نے پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے کافی سرگرم اپنے ایک قریبی دوست بصیر نوید صاحب کو فون کیا اور وجاہت مسعود کے حوالے سے بات کی تو بصیر صاحب نے جو الفاظ اس کے حوالے سے بولے اگر ادھر بیان کروں تو شاید پڑھنے والے اس کالم لکھنے کا مطلب کچھ اور سمجھ بیٹھیں مگر ایک جملہ بصیر صاحب کالکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ”ھاں یار کمال ہے کہ چھاپ دیا“

میں بذات خود گلالئی اسماعیل سے ایک دفعہ اقوام متحدہ کے دفتر جو جنیوا سویزرلینڈ میں واقع ہے ملا تھا بہت سال پہلے جب وہ کسی پروگرام کے حوالے سے اقوام متحدہ میں مدعو تھیں۔ یقین جانیں میرے اس وقت کے بات چیت اور اس کی خاموشی نے مجھے کچھ اور سوچنے پے مجبور کیا مگر بعد میں اس کی انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرمیوں اور مظلوموں سمیت تمام انسانی حقوق کے حوالے سے اس کی بہادری اور آواز نے میرے پرانے خیالات کو بالکل مٹا دیا اور جس بہادری سے اس نڈر عورت نے آواز اٹھائی اور انسانی حقوق کے حوالے سے حالات کا مقابلہ کیا سب کے سامنے ہیں۔

رہی بات اس گلالئی کے متعلق کالم کے سوالات اور سوشل میڈیا پے اس کی رد عمل کی تو مجھے امید ہے ایک دن گلالئی اسماعیل خود ان کا جواب تفصیل سے دیں گی مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نھیں کہ ہم ایک کالم کے جواب میں کسی کے ذاتی زندگی یا ذاتی فیملی کو سوشل میڈیا پے تنقید کا نشانہ بنائیں اور صرف وہ پڑھنے کے عادی ہوجائیں جو صرف ہم پڑھنا چاھتے ہیں، آپ بات یا سوالات کو بات سے ہی اور جوابات سے ہی ختم یا حل کرسکتے ہیں نہ کہ کسی اور طریقے سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).