احمد مصطفی اور کانجو محلّہ، رحیم یار خان کے بلونگڑے


مجھے بلّیاں پسند نہیں۔ بلونگڑوں سے بھی کوئی خاص رغبت نہیں۔ انگریزی میں جیسے کہتے ہیں: “I am not a cat person” ۔ مگر جب رحیم یار خان کے کانجو محلّے کے ایک گھر میں بلونگڑوں کو ماری جانے والی ٹھوکروں کے بارے میں کسی نے بتایا تو پریشانی ہوئی۔ یہ بھی پتہ چلا کہ بلّی اس وقت اپنے بلونگڑوں کو لے کر گھر میں کسی محفوظ جگہ منتقل ہوجاتی ہے جب ایک سات سالہ بچّے کا اسکول سے واپسی کا وقت ہوتا ہے۔ وہ بچّہ غصّے سے بھرا گھر کے صحن میں داخل ہوتا ہے اور بستہ پھینک کر اگر کوئی بلونگڑا بلّی کے پہلو میں نظر آئے تو اسے ٹھوکریں مارتا ہے۔ یہ بچّہ پہلے بالکل ایسا نہیں تھا مگر چند ماہ سے اس کا غصّہ بڑھتا جا رہا ہے۔ روتا، چیختا تو اس کا چھوٹا بھائی بھی ہے جو چھ سال کا ہے مگر یہ بچّہ بلونگڑوں کو بلّی کے ساتھ دیکھ کر مشتعل ہوجاتا ہے۔

ہمارے محافظ اداروں کے اہل کار جن میں سے کچھ کی قمیصوں پر انگریزی میں ”بے خوف“ لکھا تھا، بڑی بے خوفی سے رات کے پچھلے پہر ان بچّوں کے باپ کو گھر سے اٹھا کر لے گئے۔ یہ جنوری 2019ءکی ایک سَرد شب تھی اور تب سے خبر نہیں کہ وہ کہاں ہے۔ اس دوران عدالتی کارروائی بھی ہوئی اور جبری گمشدگیوں کے سرکاری کمیشن میں شُنوائی بھی۔ ابھی دو، ایک ہفتے قبل ایک سرکاری اہل کار نے ان بچّوں کے رشتے کے چچا کو فون کرکے یہ بھی بتایا کہ ان کے باپ کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ مگر وہ گھر نہیں پہنچا۔ اس دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ ان بّچوں کے باپ کو تحویل میں لینے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس نے سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز مواد مشتہر کیا۔ مگر سیانے یہ بھی کہتے ہیں کہ اصل سبب اس جواں سال آدمی کی سیاسی وابستگی ہے۔ یہ سرائیکی نیشنل پارٹی کا ترجمان تھا اور نہ جانے کب اس نے کوئی ایسی اَن دیکھی لال سیما پار کرلی جو اسے نہیں کرنی چاہئے تھی۔ واللہ اعلم۔

ایک سادہ سی بات یہ ہے کہ اگر حکومت کی دانست میں اس آدمی نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے تو اس پر مقدّمہ چلایا جائے اور دونوں جانب کے دلائل سُن کر عدالت فیصلہ کرے۔ سرائیکی قوم پرست تو یوں بھی کون سے علیحدگی پسند ہیں۔ ان میں زیادہ تر تو محض صوبہ مانگتے ہیں۔ ہمارے کچھ دوست انہیں یہ بھی سمجھاتے نہیں تھکتے کہ اگر صرف صوبہ بن جانے سے قومی، معاشی اور طبقاتی مسائل کا حل ممکن ہوا کرتا تو چار صوبے پہلے سے ہیں۔ مگر چلیے یہ بحثِ دیگر ہے۔ سرائیکی نیشنل پارٹی جمہوریت چاہتی ہے۔ تو بھئی یہ تو دستور کے عین مطابق ہے۔ مقامی وسائل پر مقامی آبادی کا حق مانگتی ہے۔ یہ بھی کوئی انوکھا مطالبہ نہیں۔

میں تو احمد مصطفی کانجو سے ذاتی طور پر واقف بھی نہیں ہوں چہ جائیکہ ان کی سیاسی جماعت سے کوئی وابستگی ہوتی۔ ہاں، ہر خطّے کے عوام کے بنیادی حقوق کی پاسداری اور ہر مردوزن کے اظہارِ رائے کی اہمیت کا احترام بنیادی امر ہے۔ویسے شاعروں کے سیاسی نظریات کو کوئی کیا سنجیدہ لے گا مگر پھر بھی نظریاتی طور پر میری بائی فوکل عینک کے عدسوں میں طبقاتی سوال کا عدسہ بڑا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ جمہوری، قومی اور طبقاتی حقوق کی بحث کا نہیں، صریح ظلم کا ہے۔

احمد مصطفی کانجو کے نانا میجر (ریٹائرڈ) عبدالنبی کانجو پاکستان بننے کے بعد دوسرے لانگ کورس سے فارغ التحصیل تھے اور 1970ءمیں منتخب ہونے والی آئین ساز اسمبلی کے رُکن۔ میجر کانجو کی صاحبزادی شمیم ضعیف ہیں اور اپنے گھر کی جوان بلّی کی طرح مستعد نہیں کہ وقت آنے پر اپنے بلونگڑے کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کر سکتیں۔

اب اگر احمد مصطفی کانجو بخیریت واپس آ جائے تو کانجو محلّے کے بّچے اور بلونگڑے پھر سے خوش ہوجائیں گے اور ان کی مائیں سب کو آباد رہنے کی دعائیں دیں گی۔ ارباب اختیار کو حضرت علؑی کی یہ بات جتنی جلد سمجھ میں آجائے اتنا اچھا ہوکہ حکومتیں کفر پر تو قائم رہ سکتی ہیں، ظلم پر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).