روک سکو تو روک لو!


ہم تاریخ کے اُس نازک دور میں واقعی داخل ہو چکے ہیں جہاں غلطی کی ذرا سی گنجائش نہیں ہے۔

اگر کسی کو امریکہ-انڈیا گٹھ جوڑ میں ذرا سی بھی غلط فہمی ہے تو ہیوسٹن کے مشترکہ جلسے کے بعد دور کر لے۔

لیکن سوال یہ اہم ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟

مسئلہ کشمیر پر سوائے ایک دو ممالک کے ہمارے ساتھ کس کی حمایت ہے؟ مودی اور ٹرمپ کی گھن گرج میں کشمیریوں کی چیخیں دنیا کو سنائی دے رہی ہیں مگر حکومتیں خاموش ہیں۔

یہ سوال اب کتنی بار دہرائیں کہ کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد پاکستان مذید تنہائی کا شکار ہوا ہے۔ بھارت پے در پے سفارتی وار کرتا جا رہا ہے۔

یہاں تک کہ پچاس دن سے کشمیر دنیا سے کٹا ہوا ہے اور ٹرمپ اور مودی بانہوں میں بانہیں ڈالے کبھی اسلامی انتہا پسندی تو کبھی نو گیارہ اور چھبیس گیارہ کے مشترکہ دشمنوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

دنیا تو بے حس ہے ہی مگر ہماری پالیسی کیا ہے، مقاصد کیا ہیں، حکمت عملی کیا ہے؟ اپوزیشن کے تقریباً تمام سر کردہ راہنماؤں جیل میں ڈالے جا چکے ہیں۔ جو باہر موجود ہیں اُن سے ہاتھ ملانا تو کُجا بات کرنے کو تیار نہیں۔

پارلیمنٹ کی کارروائی مراد سعید کی جذباتیت کی نذر ہو رہی ہے، کابینہ کے بعض اجلاس محض میڈیا کے خلاف کارروائیوں پر بحث کے بعد ختم ہو جاتے ہیں۔ کار حکومت کس کے ہاتھ اور کیسے چل رہا ہے کسی کو نہیں معلوم۔

عمران

اس میں دو رائے نہیں کہ موجودہ وزیراعظم تاریخ کے طاقتور ترین وزیراعظم ہیں لیکن فیصلے ہوتے ہی دکھائی نہیں دیتے

اس میں دو رائے نہیں کہ موجودہ وزیراعظم تاریخ کے طاقتور ترین وزیراعظم ہیں لیکن فیصلے ہوتے ہی دکھائی نہیں دیتے۔ اپوزیشن کو ٹف ٹائم دینا ہو تو فیصلے تسلیم و رضا کے ساتھ اور کارکردگی کی بات ہو تو جواب ندارد۔

یہ بھی ہونا تھا کہ پاکستان کی بیوروکریسی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہے۔ گریڈ 21 اور 22 کے بیوروکریٹس ایک سینئر سیکریٹری کی سربراہی میں کمیٹی بنانے پر مجبور ہو گئے ہیں جو نیب کے طریقہ کار پر وزیراعظم کو تحفظات اور سفارشات سے آگاہ کرے گی۔

احد چیمہ اور فواد حسن فواد کے بعد وفاقی سیکریٹریز خوف زدہ ہیں دباؤ کا شکار ہیں اور فائلوں پر دستخط کرنے سے گریزاں ہیں۔

حکومت کے حامی مقتدر خاموشی سے محض ناظر بن گئے ہیں اور سوائے جائزہ لینے کے اب اُن کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں رہا۔

جیل میں قید اور بظاہر آزاد رہنماؤں سے چند نکات پر حوصلہ افزا ردعمل مل رہا ہے البتہ چند نکات پر نواز شریف بضد ہیں۔

عام انتخابات کے انعقاد تک موجودہ اسمبلی میں سے وسیع البنیاد حکومت کے قیام کی باتیں زیر بحث ہیں البتہ یہ مخلوط حکومت آٹھ سے بارہ ماہ میں انتخابات کے شفاف انعقاد کی اصلاحات مرتب کرے گی۔

یہ بات بھی زیر غور ہے کہ عدالتی کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ احتساب سے متعلق مقدمات کا ازسرنو جائزہ لیا جاسکے۔

میڈیا کی مکمل آزادی بھی اہم نقطہ ہے۔ تاہم گزشتہ الیکشن میں دھاندلی کی عدالتی تحقیقات، چند معافیوں تلافیوں پر معاملات التوا کا شکار ہیں۔

بہر حال مخلوط قومی حکومت اور انتخابات کے انعقاد سے متعلق معاملات تحریک انصاف کسی صورت طے نہیں ہونے دے گی۔ نتیجہ، محاذ آرائی!

وزیراعظم یہ بار ہا کہہ چکے ہیں کہ وہ کوئی این آر او نہیں دیں گے جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ این آر او کبھی کسی سیاسی حکومت نے سیاست دانوں کو نہیں دیا۔

یہ نقطہ بھی اہم ہے کہ سزا معطلی کی اپیل میں نواز شریف کی جانب سے تقریباً تین ماہ کے وقت کی استدعا کی گئی ہے جو معنی خیز ہے۔

آئندہ دو ماہ میں حالات کو بے یقینی سے نکالنا بے حد ضروری ہے تاکہ ایف اے ٹی ایف اور گرتی معیشت کو سنبھالا دیا جا سکے۔

کشمیر ہو یا ایف اے ٹی ایف، معیشت ہو یا پنجاب کی گورننس، تحریک انصاف کا امتحان بہرحال شروع ہو چکا ہے۔

اب اس پُل صراط سے کیسے گزرنا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت بھی اہم تبدیلیاں لائے مگر کیا عثمان بزدار کو تبدیل کیا جائے گا؟ بات یہیں پھنس گئی ہے۔

روک سکو تو روک لو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).