عارفہ شہزاد کا شعری مجموعہ ”عورت ہوں نا“


عارفہ شہزاد کی ”عورت ہوں نا! “ میں نے ایک سے زیادہ بار پڑھی مگر اس کی تفہیم کا غرفہ ہے کہ کھلنے کا نام نہیں لیتا۔ کہیں ایک ابلاغی تہ داری کا حجاب وجہ فراق ہے تو کہیں نسائی رمزیت نے ”با ادب با ملاحظہ ہوشیار“ کی گونج سے موجود کو دہکا رکھا ہے اور اگر کہیں سے شناسائی کی کوئی کرن پھوٹتی ہے تو جناب تبسم کاشمیری کا بیان اس پر سد نمود ہے۔ بس ایک رس بھری غنائیت ہے جو نظموں کے باطن اور قاری کے حسی مکاشفوں کے مابین رم کرتی اور اسے موجود کی ندرت اور عمومیت ہر دو سے جوڑتی ہے اور اس کتاب کی فکری توانائی ایک میٹھی چبھن کر قاری کے وجود کو منور ہی نہیں مسحور بھی کرتی ہے۔

میں پچاس برس سے شعر کہہ اور شاعری پڑھ رہا ہوں مگر شاعری کیا ہے اور کیوں ہے کی رمز آج تک نہیں جان پایا۔ اس کی وجہ میرے غبی ہونے سے زیادہ شعری لطافت کا ناقابل شناخت ہونا ہے۔ یہ کہی رنگ ونور کی طرح، لفظوں کی کیمیا میں گھلی ہوتی ہے تو کہیں ہوا اورخواب کی طرح کسی اور ہی فضا سے ورود کرتی ہے اور اس دھند بھری کیفیت کو آپ اپنے حسی ادراک کی سان پر چڑھا کر واضح کر سکتے ہیں۔ ”عورت ہوں نا“ میں یہ دھندلی مانوس شباہت بار بار ظہور کرتی اور مستور ہوتی ہے اور خوب ہوتی ہے۔

مگر اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ نظمیں بے معنی اور گنجلک ہیں۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری صاحب نے ان کے با معنی اور نادر فکری نقش وضع کرنے کے بارے میں درست نشاندہی فرمائی ہوئی ہے اور حساس اور پر کیف نسائی تمثیلوں کی طرف بجا طور پر توجہ دلائی ہے۔ مگر میری ناچیز رائے میں یہ کتاب صرف اس پہلو تک محدود نہیں کہ یہ نظمیں صرف شاعرہ کہ عورت ہونے کی گواہی نہیں دیتیں۔ ان میں نسائی وجود کی تکمیلیت اور فکری عدم مساوات کو اجاگر کرنے کی طلسماتی شکتی ایک مانوس اور توانا لہر بن کر ابھرتی ہے۔ جو اس سے پہلے تانیثی اظہار کا حصہ بنی ہی نہیں اور اگر کہیں ہے تو اس تیقن اور تاکید کے ساتھ نہیں! ذرا دیکھیے :

میں آغاز ہستی سے، ہوا کی صورت

ہوں آدم کی خواہش کا اک شاخسانہ

زمیں کو بسانے کا بس اک بہانہ

میں روز ابد نیکیوں کا صلہ ہوں

نہ جانے میں کیا ہوں؟

گلہ خالق کل سے کیسے کروں میں

اسی کی رضا ہوں!

یہ ہے فخر آدم

کہ بس ابن آدم

امین خدا ہے، قرین خدا ہے

یہ ہستی مری

کیا فقط واسطہ ہے؟

یہ تسلیم ہے

میں صحیفوں میں تو

عابدہ، مومنہ، صالحہ کے لقب سے پکاری گئی تھی

مگر جب فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا تھا

تو حوا کہاں تھی؟

میں روحوں کے اقرار کے وقت جانے کہاں؟

کون سی صف میں تھی

یا نہیں تھی؟

اگر تھی تو اقرار بھی تو کیا تھا!

عدم میں اگر روح خود مکتفی تھی

تو پھر خالق کن فکاں کی وہ کیا مصلحت تھی

کہ میں دوسری تھی؟

(نظم ”وہ کیا مصلحت تھی“ )

اور فکری بہجت کے یہ تیور کچھ اس نظم تک محدود نہیں، ان کی کچھ اور نظمیں جیسے، ”اذن گویائی“، ”میرا حصہ“، ”مقام حطیم“، ”زیارت اقدس“ اور ”تیرے لیے ہی ناممکن ہے“ بھی اسی تیزابی تجاوز کی توسیع ہیں ”عورت ہوں نا“ کا دوسرا غالب رنگ طلب یگانگت ہے، جسے عشق کی مستی اور سرشاری تقویت بھی دیتی ہے اور شناخت بھی۔ عارفہ شہزاد کی نظموں میں ایک عجیب طرح کی سری حقانیت ہے اور ان کے اوپر ایک عجیب طرح کی بے ریا خود سپردگی کا غلبہ ہے۔

اسی خود سپردگی جو صرف عورت ہی کو زیب دیتی ہے اور اسی سے مخصوص ہے۔ اردو شاعری می اظہار ذات کے کئی اسلوب آزمائے گئے ہیں جن میں سارا شگفتہ، فہمیدہ ریاض اور عذرا عباس کی نوکیلی طلاقت اور بے باکانہ پیش رفت ہمارے لیے نئی نہیں۔ مگر عارفہ شہزادکے ہاں ایک سلجھی ہوئی متانت اور نرم خو وقار کا پہلو نمایاں ہے۔ اس ضمن میں ان کی یہ نظمیں ”انہونی“، ”عورت ہوں نا“، پروائی ہوں ”، “ ٹیوبروز ”، “ اذن گویائی ”، “ یہ دن ”، اگرتم یہ جانتے“، ”بارش کو کب پتا ہے“ اور ”ذرا بھی ڈر نہیں لگتا“ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ دیکھیے تو یہ نظم ”کون؟ “ :

پریت کی چوڑی بانہہ میں ڈالی

آنکھ میں یاد کا کاجل

ٹانک کے تارے آرزووں کے

خواب کا اوڑھا آنچل

نین نشیلے، خواب سجیلے

کون مچائے، ہلچل؟

روپ عجب ہے، رنگ غضب ہے

کون؟

یہ میں ہوں؟

پاگل!

یہ نظم جو بظاہر اتنی سادہ ہے اور وجدانی سہولت سے کہی گئی ہے۔ اس کتاب کی باطنی تمازت کا استعارہ ہے۔ یہی باطنی تمازت وہ لاسلکی جوہر حیات ہے جو شاعر کے ہونے اور فکری طور پر فعال اور بالغ ہونے کی خبر دیتا ہے اور جس کے دائرے میں کائنات مرکزی سالمہ بن کر نمود کرتی اور پھیلتی سکڑتی ہے۔

بابا فرید گنج شکر سے روایت ہے کہ انھوں نے روح کل سے فطری مناسبت کے لیے حسرت سے عورت ہونے کی تمنا کی تھی۔ عارفہ شہزاد کی شاعری پڑھنے پر بھی مجھے بھی کئی بار اپنے مرد ہونے پر مایوسی ہوئی۔ تحلیل نفسی کے داعین سے قدرت کے ساتھ میں اپنی نسائی دوسراہٹ پر صاد کہتے ہوئے شرماتا ہوں مگر عارفہ شہزاد کی نظموں نے مجھے نسائی انوار اور ثروت کے ایسے رنگ دکھائے کہ مجھے اب تک ان سے نابلد رہنے پر شرمندگی بھی ہے اور حیرت بھی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسی صباحت صرف اور صرف عورت ہونے کا شاخسانہ ہوتی ہے۔

عارفہ شہزاد اکیسویں صدی کی عورت ہے۔ اسی لیے اس کی شاعری لسانی پھیلاؤ اور فکری سبھاؤ کے لحاظ سے آج کی شاعری ہے اور پر رفتگان، خاص طورمجید امجد کے اسلوب کا ہلکا سا پرتو ایک اضافی ارمغان بن کر سامنے آتا ہے۔ مگر یہ میرا ذاتی تاثر ہے کوئی محاکماتی الزام نہیں اور اگر ہے بھی تو اس میں کوئی برائی نہیں۔

عارفہ شہزاد کی شاعری کا پھیلاؤ وجود سے موجود کے دائرے تک ہے کیونکہ کوئی بھی سچا شاعر اپنے موجود سے بے گانہ نہیں رہ سکتا۔ ان نظموں میں ہماری معاشرت، ہمارا طرز احساس، ہماری فکر صرف دھڑک ہی نہیں رہی، سمٹ اور پنپ بھی رہی ہے۔ جو بالآخر ”چپ“ جیسی نظم کی تخلیق کا باعث بنتی ہے :

ہمارے درمیاں کوئی نہیں، کچھ بھی نہیں

اک عہد حائل ہے

بہانہ گفتگو کا اب کہاں سے ڈھونڈ لائیں ہم

کہانی منطقی ہے

اور کیا تم کو سنائیں ہم

سو ”عورت ہوں نا“ ایک منطقی کتاب ہے جو عارفہ شہزاد کے فکری مکاشفوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان مکاشفوں کا فکری عمق کہیں بھی شاعری کی وجدانی لطافت پر غالب نہیں آتا اور اس میں دلوں کو چھو لینے والی تاثیر کاپہلو غالب رہتا ہے۔ 3 ستمبر 2016

عارفہ شہزاد تخلیقی اعتبار سے بہت فعال ہیں۔

نظم کی شاعرہ کے حوالے سے عارفہ اپنی کتاب ”عورت ہوں نا“ کی تخلیقی شگفتگی کی بنیاد پر بہت سراہی گئی ہیں۔ یہ کتاب تانیثیت کی تحریک سے جڑی نہ ہونے کے باوجود عورت کے باطنی اثمار اور فکری معراج کی بہترین نمائندہ ہے اور موضوعاتی سطح پر بعض ان گوشوں کو بے نقاب کرتی ہے جو اس سے پہلے اردو شاعری کا موضوع نہیں بنے، جس کی ایک سامنے کی مثال ان کی نظم ”میل اسکارٹ“ ہے۔ :

Male Escort

کسمساتی لذتوں کی

ان سنی سرگوشیاں

سنتا ہوں میں!

فینٹسی کی آنچ پر پگھلے بدن سے

ماورا پیکر بناتا ہوں

مجسمے ڈھالتا ہوں، من پسند

اور حسب خواہش۔

تشنگی لبریز ساری آرزوؤں سے

اٹھاتا ہوں خمیر خواب

میری مخلصی سیماب ہے

پارہ صفت ہے

اورگناہ اس وقت تم میں جتنا ہے

مجھ میں بھی

بس اتنی ہی نیکی ہے!

مگر کس نے یہ دیکھی ہے؟

مجھے خفت کہاں ہے

اس سمندر میں

بدن کے ساز پر گاتا ہوں

سب ممنوعہ گیتوں کو

یہ جل پریاں یہاں جو رقص کرتی ہیں

میں ان کے آدھے تن کا پورا من

ہو ہی نہیں سکتا!

میں عریاں تن کی پھسلن ہوں

بدن کے جنگلوں میں

ہیں نہفتہ ساری جو چنگاریاں

میں چنتا رہتاہوں

دریدہ خواہشوں کے

بکھرے تاروپود بنتا ہوں

ذرا سی دیر کا ہے ساتھ

پر امرت بھرا ہوں میں

ہمکتی جل پری آو

اسی پل کا خدا ہوں میں!

اردو شاعری کی پہلی نسائی آواز ادا جعفری ہے اور اس آواز کو عورت کی نفسیات اور باطنی مظاہر سے جوڑنے کا کام کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض نے کیا ہے۔ جس کو بلند آہنگ کرنے کا کام عذرا عباس، پروین شاکر اور سارہ شگفتہ نے انجام دیا مگر ان کی تخلیقی سطح ترفع کا رنگ پیدا نہیں کرتی اور جنسی تجربہ یا کیفیت ایک بے مزہ بیانیہ بن کر رہ جاتی ہے۔ یوں کہنا چاہیے کہ ان کی شاعری یک سطحی ہے اور اس میں شعری لطافت نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس لیے اس کا مطالعہ ایک خاص طرح کی اکتاہٹ پیدا کرتا ہے مگر عارفہ شہزاد کے جہاں عورت کے جذبات سے جڑی ہر کیفیت خالص شعری اظہار لیے ہے اور اس میں تخلیقی وفور اور مربوط نفسی بیانیہ ایک خاص طرح کا لطف اور تاثیر پیدا کرتا ہے۔ یعنی عارفہ مذکورہ شاعرات کے مقابلے میں زیادہ مضبوط تخلیقی صلاحیت رکھتی ہیں اور ان کا بیانیہ علامت اور کنایے پر استوار ہونے کے باوجود زیادہ با معنی ہے۔

عارفہ کا اسلوب اور زبان و بیان پر اس کی قدرت قابلِ ستائش ہے۔

اس کے موضوعات کی وسعت، بے ساختگی اور باطنی نفسیات سے گہری نسبت پر حیرت ہوتی ہے۔ اسے پڑھ کر ہم عورت کے باطن کو پڑھ رہے ہوتے ہیں اور کئی چیستان اشاروں ہی اشاروں میں کھلتے چلے جاتے ہیں۔

عارفہ شہزاد کی شاعری کا ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس کی شاعری عامیانہ لذت پرستی اور ہیجان پیدا نہیں کرتی بلکہ فکر کو کشادہ اور مہمیز کرتی ہے۔ ان پر ایک دل موہ لینے والا آہنگ غالب ہے اور تمام نظمیں مل کر ایک سمفنی کی کیفیت پیدا کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).