شکست کی قیمت


ولیڈن کی زندگی کا اب ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طرح وہ نطاشہ کو ڈھونڈ نکالے اور دوبارہ وہ دن واپس آجائیں جب وہ دونوں اکٹھے تھے۔ اس نے ہر فوجی کیمپ، پولیس اسٹیشن، اور جیل کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ شہر کے سب با اثر اشخاص سے ملا۔ سرکاری ملازموں، فوجی افسروں اور وزیروں کی منت سماجت کی اور بعض دفعہ ان کے سامنے بے اختیار بلک بلک کر رویا۔ اس کی سمجھ سے بالاتر تھا کہ نطاشہ نے اتنا بڑا فیصلہ بغیر کچھ کہے، کچھ سنے کیسے کر لیا۔

خانہ جنگی سے پہلے ولیڈن اور نطاشہ سوکاویا کے مداوی صوبے میں سکھ چین کی زندگی گزار رہے تھے۔ پھولوں سے لدا ہؤا ایک چھوٹا سا مکان ان کے لئے بہشت کی مانند تھا۔ پر کشش خد و خال کا مالک ولیڈن ماحولیات کی وزارت میں ملازم تھا اور نطاشہ جو پر اثر انداز کی ملکہ تھی ایک اسکول میں پڑھاتی تھی۔ ولیڈن کی مادری زبان مداوی تھی جب کہ نطاشہ کا تعلق سوکاوی لسانیت سے تھا۔ مداوی صوبے کے لوگ کئی سال کوشش کرتے رہے کہ مداوی زبان کو بھی قومی زبان کا درجہ مل جائے لیکن اس تجویز کی سوکاوی لوگوں کی طرف سے سخت مخالفت تھی۔ مداوی کو قومی زبان کا درجہ دلوانے کے لئے پہلے احتجاج اور مظاہروں کے بعد دنگے فساد کی نوبت آگئی اور پھر آخر کار خانہ جنگی کی۔ دونوں لسانی گروہوں نے ایک دوسرے پر مسلح حملے شروع کر دیے اور مداوی صوبے میں سوکاویا کے جھنڈے اتار کر مداوی کے جھنڈے لہرا دیے گئے۔

ولیڈن اور نطاشہ کو پورا اندازہ تھا کہ بہت برے دن آنے والے ہیں لیکن ان کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ بھاگ کر کسی دوسرے صوبے یا ملک میں جا کر بیٹھ جائیں۔ ولیڈن دفتر جاتا تو سوکاوی اس کو نفرت سے دیکھتے جیسے وہ اس مار دھاڑ کا ذمہ دار تھا۔ پھر ایک دن اس کے باس نے اس کو دفتر آنے سے منع کر دیا۔ ولیڈن کی آمدنی کا سلسلہ بند ہو گیا اور وہ گھر بیٹھ گیا۔ اس کے بیٹے الیگسندر میں جوانی کا جوش تھا۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ایک مداوی ملیشیا میں شامل ہو گیا۔

جب مداوی ملیشیا نے فوج ہر حملے کرنا شروع کر دیے تو ایک ایسی ہی جھڑپ کے دوران الیگسندر کو فوج نے گرفتار کر لیا۔ خانہ جنگی مزید بڑھی تو سوکاویا کی فوج نے مداوی پر بمباری شروع کر دی۔ ایک بم گھر سے کچھ دور گرا تو ولیڈن کی بیس سالہ بیٹی الینا کے کمرے کی چھت اس پر آن پڑی۔ اس کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی لیکن ہسپتال مستقل بند ہو چکا تھا۔ سارا عملہ تتر بتر ہو گیا تھا۔ الینا تکلیف سے کراہتی رہتی تھی۔

ولیڈن اور نطاشہ پر آسمان آ گرا تھا۔ ایک قیامت صغریٰ تھی جس میں سے نکلنے کی کوئی ترکیب نظر نہیں آتی تھی۔ ولیڈن کی ملازمت کی بحالی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ نطاشہ کی تنخواہ سے تو کھانے پینے کا خرچہ بھی نہیں پورا ہو رہا تھا۔ الیگسندر کو ناجانے فوج نے کس حال میں رکھا ہوا ہو گا اور کئی سال کی قید بامشقت ہو گی یا بغاوت کے الزام میں موت کی سزا۔ ادھر الینا کی ٹانگ اگر جلد ٹھیک نہیں ہوئی تو انفیکشن پھیل جائے گا اور ٹانگ کو کاٹنا پڑے گا۔

یہ خانہ جنگی تین چار دنوں سے زیادہ نہ چل سکی اور اس کے اگلے روز ہی پورے سوکاویا میں جشنِ اتحاد کا اعلان کر دیا گیا۔ نطاشہ کو پتہ چلا کہ ایک جنرل اس کے شہر کا دورہ کرنے کے لئے آ رہا ہے تا کہ حالات کا جائزہ لے۔ شہر کے لوگ سہمے ہوئے تھے لیکن نطاشہ شہر کی مرکزی سڑک آ کھڑی ہوئی اور جنرل کا انتظار کرنے لگی۔ جب جنرل سڑک سے گزرا تو وہ ہاتھ اونچا کر کے ہلانے لگ گئی۔ جنرل نے ڈرایور کو جیپ روکنے کے لئے کہا اور اشارے سے نطاشہ کو بلاکر اس سے سوکاوی زبان میں لکھا ہوا خط لے لیا۔

نطاشہ گھر واپس آ گئی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کیا جنرل وہ خط پڑھتا ہے کہ نہیں۔ اگر پڑھتا ہے تو کیا اس کے دل میں رحم آتا ہے۔ اگلے روز اچانک زور سے دروازے پر دستک ہوئی۔ ولیڈن اور نطاشہ دونوں سہم گئے۔ دوبارہ دستک ہوئی تو نطاشہ نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔ ایک فوجی افسر نطاشہ کا خط لئے کھڑا تھا۔ اس نے نطاشہ سے اس کا نام پوچھا اور بتایا کہ جنرل نے حکم دیا ہے کہ وہ ان کے اور گھر کے حالات کا جائزہ لے۔ وہ نطاشہ کو مسلسل ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا۔

نطاشہ کو یہ گمان نہیں تھا کہ مفلسی اور افسردگی کی حالت میں وہ کسی کے لئے اتنی پر کشش ہو سکتی تھی۔ افسر گھر کے تمام کمروں میں گیا اور جب اس نے الینا کو دیکھا تو وہ اب نطاشہ کے بجائے الینا کو مسلسل تاک رہا تھا۔ ولیڈن اور نطاشہ دونوں گھبرائے ہوئے تھے۔ افسر نے کہا کہ وہ جنرل کے حکم کے مطابق الینا کو اپنے ساتھ لے جائے گا اور کسی دوسرے شہر میں اسے ہسپتال میں داخل کروا دے گا۔

ولیڈن نے فوراً کہا کہ وہ بھی ساتھ جائے گا لیکن فوجی افسر نے منع کر دیا کہ کسی کو بھی ساتھ جانے کی اجازت نہیں ہے۔ جب ولیڈن نے دوبارہ اصرار کیا تو افسر طیش میں آگیا اور دھمکی دی کہ وہ ولیڈن کو گرفتار کر لے گا۔ نطاشہ اس کے تیور دیکھ کر کافی گھبرائی ہوئی تھی۔ اس نے فوجی افسر سے کہا کہ وہ لاؤنج میں بیٹھ کر انتظار کرے، وہ الینا کو تیار کرائے دیتی ہے۔ اور پھر آنکھوں سے اس نے ولیڈن کو خاموش رہنے کے لئے اشارہ کیا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ ولیڈن کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ جاننے کے لئے نطاشہ کے پاس اندر جانا چاہتا تھا لیکن ولیڈن باہر ہی بیٹھا رہا تا کہ افسر کہیں الینا کی طرف نہ چلا جائے۔ وہ بہت شش و پنج میں مبتلا تھا کہ نطاشہ کیا کر رہی تھی۔ اس کے پاس الینا کو بچانے کے لئے کیا ترکیب تھی!

دس منٹ کے بعد نطاشہ لاؤنج میں آئی تو اس نے نیلے رنگ کا خوبصورت بلاوز اور اسکرٹ پہنی ہوئی تھی، بال سنورے ہوئے کچھ پیچھے، کچھ ماتھے کے ایک طرف ڈالے ہوئے، گلے میں نفیس کالے موتیوں کا ہار اور ہلکا ہلکا میک اپ کیا ہوا۔ نطاشہ کا حسن اور جوانی دونوں پھوٹ پڑ رہے تھے۔ وہ الینا کے کمرے میں گئی اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اس کو ہلکے سے بتایا کہ وہ جلد ہی واپس آ جائے گی۔ پھر اس نے اشارے سے الینا کو خاموش رہنے کے لئے کہا۔ الینا نے ماں کا بلاؤز پکڑ لیا جیسے اس کو روکنے کی کوشش کر رہی ہو۔ نطاشہ نے اسے بھینچ کر ایک اور بوسہ دیا اور تیزی کے ساتھ کمرے سے نکل گئی۔

باہر آ کر اس نے ولیڈن کو بوسہ دیا۔ اس کے دلکش چہرے پر ایک فاتح کی مسکراہٹ اور گہری آنکھوں میں شکست خوردہ روح کے آنسو۔ اس سے پہلے کہ ولیڈن کچھ کہہ سکے نطاشہ نے فوجی کا ہاتھ پکڑا اور باہر کی طرف چل دی۔ مکان کے دروازے سے نکلنے سے پہلے اس نے پیچھے مڑ کر بھر پور نگاہوں سے ولیڈن کو دیکھا۔ ولیڈن آوازیں دیتا ہوا اس کے پیچھے بھاگا لیکن وہ جیپ میں بیٹھ کر جا چکی تھی۔

دو روز بعد ایک فوجی آیا اور الیگسندر کو گھر چھوڑ گیا۔ ولیڈن نے اس سے نطاشہ کے بارے میں پوچھا لیکن اس کو کچھ نہیں پتہ چل سکا۔ فوجی نے ایک خط بھی ولیڈن کو دیا۔ ولیڈن نے اس کو بڑی بے صبری سے کھولا کہ شاید یہ نطاشہ کا خط ہو گا۔ وہ خط ولیڈن کی ملازمت کی بحالی کا نوٹس تھا۔ تیسرے روز ایک ایمبولینس الینا کو ہسپتال لینے کے لئے آئی۔ الیگسندر بھی اس کی حفاطت اور تیمارداری کے لئے ساتھ ہی چلا گیا۔

ولیڈن جب دفتر سے گھر آتا تو اس کو ہر در و دیوار کاٹنے کو دوڑتے۔ اس کو ہر طرف نطاشہ نظر آتی کبھی باورچی خانے میں کھڑی ہوئی، کبھی لاؤنج میں کوئی کتاب پڑھتی ہوئی، کبھی موسیقی کی دھنوں میں محو۔ وہ گھبرا کر گھر سے باہر نکل جاتا اور چلتے چلتے اس کے پاؤں میں آبلے پڑ جاتے۔ ہر گلی کے کونے پہ وہ نطاشہ کو پکارنے لگ جاتا۔

ایک دن ولیڈن دفتر پہنچا تو ایک لفافہ اس کی میز پر رکھا ہوا تھا۔ لفافہ دیکھ کر اس کا دل دھک دھک کرنے لگا شاید یہ نطاشہ کا خط ہو یا اس کے بارے میں کوئی خط ہے۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس نے لفافہ کھولا تو اس میں ایک چیک تھا جو گھر کی مرمت کے لئے سرکار کی طرف سے آیا تھا۔

لیکن نطاشہ کبھی واپس نہیں آئی اور نہ ہی اس کے بارے میں کچھ پتہ چل سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).