زندہ ہے سندھو دریا زندہ ہے


میں نے تعلیم کے شعبے میں تمام عمر حلال کی کمائی کھائی۔ میرے پاس اتنا پیسہ کہاں تھا کہ بیٹا آزاد کرواتی!
اسی پریشانی میں ایک دن سیدھی شاہ سائیں (شاہ عبدالطیف بھٹائی) کے مزار پہنچ گئی اور شاہ سائیں سے کہا، مجھے آج کے دن میں اپنا بیٹا چاہیے۔

اسی رات فجر کے وقت دروازے پر گھنٹی بجی۔ دروازہ کھولا تو پردیپ کھڑا تھا۔ کہنے لگا پتہ نہیں کس خیال سے ڈاکو مجھے جنگل سے نکال کر نیشنل ہائی وے پر لے آئے اور آنکھوں پر بندھی پٹی اتار کر کہا کہ اس طرف حیدرآباد ہے۔ پیچھے مڑ کر مت دیکھنا۔ جو بھی گاڑی ملے اس سے لفٹ لے لینا۔

دادی لیلا سے یہ بات سن کر بے اختیار میرے منہ سے حیرت کا کوئی جملہ نکل گیا۔ جواب میں بڑی شان سے سر اونچا کرکے بولیں، ارے ہم تو وہ ہیں جو پتھر کے بتوں سے اپنا کام نکلوا لیتے ہیں، شاہ سائیں تو زندہ ولی ہیں!
دادی لیلا کا پچھلے سال سو برس سے زیادہ کی عمر میں انتقال ہوا۔

گھوٹکی معاملے کی اس مضطرب رات کچھ ہی عرصہ پہلے کی اپنی ایک بے چین سی خواہش یاد آ گئی، جسے سختی سے دبا دیا تھا میں نے۔
میرے والدین کا مدینے سے بڑا گہرا تعلق تھا۔ زمانے نے دونوں کو عاشقِ رسولﷺ کی شناخت دی اور اسی بنا پر ان سے بے انتہا محبت کی۔

اماں کا عشق بہت ہی جلالی اور بے حجابانہ تھا اور زود رنج بھی بہت تھیں۔ دکھ زمانے سے پہنچتا یا بابا سے شکوہ ہوتا، شکایت لے کر سیدھی روضہِ رسولﷺ پہنچ جاتیں اور اونچی آواز میں اپنا دکھ یوں بیان کرتیں جیسے روبرو حاضری میں ہوں!

روتے ہوئے بڑی حجت سے تقاضا کرتیں کہ آپ ہی اب میرا فیصلہ کیجیے۔
معاملہ اگر ان کی مرضی کے مطابق نہ سلجھتا تو شکوہ بھی کھل کر کرتیں کہ میری فریاد نہیں سنی گئی!
بالکل اس بیانیے پر آ جاتیں کہ کیا کہے گا جہاں، آپ کے در سے خالی اگر جائیں گے!

بابا انہیں ایسا کرنے سے منع کرتے اور حدِ ادب میں رہنے کو کہتے تو بڑے مان سے کہا کرتیں کہ کیوں نہ ایسا کروں؟ اور کون ہے میری سننے والا!
اماں کے اندر سیّد ہونے کا ایک مان سا تھا۔ ایسا مان جو کسی انتہائی اپنے پر بڑے حق کے ساتھ ہوتا ہے۔

میں نے جب ذرا سا قد نکالا اور کہانیاں لکھنے کے قابل ہوئی تو سندھ کے سماج میں سیّد ہونے کے احساسِ برتری سے باغی ہوگئی اور کھل کر فیوڈل نظام کے خلاف لکھا۔
عرصے تک سندھ بھر کے با اثر سیّدوں کی میرے خلاف مہم چلتی رہی۔
نجانے کب اس مہم نے بلآخر دم توڑا، مگر میں نے بھی کبھی مڑ کر خبر نہ لی۔

اب پچھلے کچھ عرصہ سے سندھ کے ایک پیر صاحب کی سرگرمیوں کی خبریں ذہن کو جھنجوڑتی رہتی ہیں۔
پیر صاحب کم سن دلت لڑکیوں کو مسلمان کر کر کے خوب سیاسی و مذہبی حلقہِ اثر بڑھا رہے ہیں اور دوسری طرف لڑکیوں کے دلت والدین عدالتوں میں مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں اور چوراہوں پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اور بال نوچ نوچ کر فریاد کر رہے ہوتے ہیں۔

لڑکیاں اعزازی شوہروں کے نکاح میں چلی جاتی ہیں اور عدالت میں ماں باپ کو بلکتا چھوڑ دیتی ہیں۔
پھر اچانک منظر سے غائب ہوجاتی ہیں۔
خدا جانے زمین انہیں نگل جاتی ہے یا آسمان کھا جاتا ہے!

اب جب بوڑھی ہونے لگی ہوں تو میرے اندر بھی اماں کی روح اکثر گھس آتی ہے۔ سو دلت والدین کی بے بسی دیکھتے دیکھتے دل شدت سے مچل اٹھتا کہ اس غیر سیّد پیر صاحب کو اماں کی طرح سیّد ہونے کے مان کے ساتھ خط لکھوں کہ میں اپنا احتجاج کا حق ساتھ لیے مدینے جا رہی ہوں اور وہاں روضہِ رسولﷺ کے سامنے ان دلت والدین کی فریاد پیش کروں گی۔ پھر دیکھتے ہیں کہ فیصلہ کس کے حق میں ہوتا ہے!

مگر یہ ردعمل کی ایک کیفیت ہی ہوتی ہے، ورنہ کتھے مہر علی، کتھے تیری ثنا!

15 ستمبر کی اُس رات گھوٹکی واقعے پر اضطراب کی اسی کیفیت میں اماں کی روح ایک بار پھر مجھ میں گھس آئی کہ کاش پاکستان میں بستی اقلیتوں کا مقدمہ اماں کی طرح رسول اللہﷺ کے حضور پیش کرسکوں کہ سرکار! اب آپ ہی فیصلہ کیجیے۔ آپ نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا! کیا کہے گا جہاں! آپ کے در سے خالی اگر جائیں گے!

یوں جانے کب رات تمام ہوئی اور کب نیند نے مجھے گھیر لیا!
مگر اگلے دن سے امید کا ایک نیا سفر شروع ہو چکا تھا۔

آج کے سندھ کا ایک نیا اور مسلسل منظر تھا جو فلم کی طرح چلنا شروع ہوگیا۔ وہ فلم چاہے میڈیا کی اسکرین پر نہ چلائی جائے مگر سورج کی طرح ایک روشن حقیقت ہے۔
جامی چانڈیو ہمیں سچ کہہ رہا تھا کہ آج کا سندھ تم لوگوں نے دیکھا ہی کب ہے!

اور میں دیکھ رہی تھی کہ سندھ کے لوگوں کا ایک ہجوم گھوٹکی کی ہندو کمیونٹی سے اتحاد کے لیے امڈ پڑا۔ بلوائیوں کی واردات کے بعد شب بھر مقامی مسلمان بڑی تعداد میں مندر کے اندر بیٹھ کر پہرا دیتے رہے۔ اگلی صبح لوگوں نے پروفیسر نوتن کا اسکول کھلوایا۔ ٹوٹا فرنیچر خود جوڑا۔ اپنے بچوں کو اسکول بھیجا۔ معاملہ یہیں ختم نہ ہوا بلکہ سندھ کے تمام ادیب و دانشور، فیمینسٹ اور سماجی و سیاسی ایکٹوسٹ، اساتذہ اور سندھ کے نوجوان طلباء و طالبات قافلہ در قافلہ گھوٹکی کی جانب رواں دواں تھے اور کم عمر دلت لڑکیوں کو مسلمان کرکے والدین سے جدا کردینے والے گھوٹکی کے پیر کو بھی آنکھیں دکھا رہے تھے کہ ”میاں“ خبردار رہو۔ سندھ جاگ رہا ہے۔

انہی دنوں فروغ نسیم کے بیان پر کہ آرٹیکل 149 کے تحت کراچی کو وفاق کے حوالے کیا جائے گا اور اس سے پہلے حکومتی ارکان کی طرف سے صوبائی خود مختاری و حقوق کی 18 ترمیم پر مسلسل حملے اور سندھ کو تقسیم کرنے کی متعصبانہ باتیں ہوتی رہی تھیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah