زندہ ہے سندھو دریا زندہ ہے


گویا زرداری پر عائد الزامات کے ساتھ پوری سندھ دھرتی نیب کے حوالے کرنے کی خواہش ہو اور سندھ کو اس کے ووٹ بینک کی سزا دی جائے۔
یہ تمام بحث ایک طرف میرے لیے تو
سندھ کے لوگوں کا ان سازشوں کے خلاف

ہم آواز ہوکر اٹھ کھڑے ہونا اور ہر سیاسی پارٹی سے بالاتر ہوکر فقط سندھ کے پلیٹ فارم پر متحد ہونا اور اس اجتماعی مزاحمت پر بلآخر حکومت کا ان بیانات سے انحراف، تازہ ہوا کے خوشگوار جھونکے کی مانند تھا کہ سندھ جاگ رہا ہے۔

اس خوشی میں شاہ سائیں کا بیت تھوڑے سے اضافے کے ساتھ گنگناتی پھری کہ میرے رب سائیں، سندھ کو ہمیشہ ہرا بھرا رکھ اور سندھ کے ساتھ ساتھ تمام جہانوں اور میرے پاکستان کو سلامت و آباد رکھ۔

سندھ کے مختلف شہروں میں مزاحمتی مظاہروں کے بعد 22 ستمبر کو کراچی پریس کلب پر سندھ کے لوگوں کا غیر سیاسی اجتماع اور اس میں کراچی سمیت سندھ کے شہروں اور دیہاتوں سے عوام کی شرکت اور سندھ میں بسنے والے ہر زباں کے ہم وطنوں کے ساتھ اتحاد کا مظاہرہ دیکھ کر میری آنکھیں نم ہوگئیں۔

نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کا ہجوم تھا جو کراچی اور دور دراز کے شہروں سے آئی تھیں اور مردانہ ہجوم کے وسط میں گردنیں اٹھائے کھڑی تھیں۔ انہیں دیکھ کر دل جھوم سا گیا کہ سندھ کا یہی تو وہ سماج ہے جس کا خواب برسوں لکھتی رہی تھی میں!

آج سندھ کے ہر شہر کی عورت اپنی آزادی کے لیے ہی نہیں، صوبائی خود مختاری اور سندھ کی بقا کے لیے عین سندھ کے سینے کراچی میں کھڑی ہے۔

ان کے ہاتھوں میں اردو میں لکھے پلے کارڈز کہ ”سندھ ایک ہے۔ ہم سب ایک ہیں“ دیکھ کر دل نے کہا کہ اسی متحد سندھ کی ہی تو تمنا کی ہے میں نے کہ سندھی اور اردو بولنے والوں کی نسلیں پُر امن سندھ میں پھلیں اور پھولیں۔ دونوں زبانیں سندھ میں ماں بولی کی طرح بولی جائیں۔ سندھ میں شالا کسی بھی زبان کا جنازہ نہ اٹھے۔

اسٹیج پر سندھی شاعر کے ساتھ ایک اردو ادیبہ اردو میں سندھ کے لیے امن و محبت کا پیغام دے رہی تھیں اور جواب میں نیچے کھڑے لوگ سندھی میں محبت بھرے نعروں کے ساتھ جواب دے رہے تھے۔

”کراچی تا کشمور، کینجھر تا کارونجھر سندھ ایک ہے“
”ہم سب ایک ہیں“
اس ہجوم میں کھڑی میں دیکھ رہی تھی کہ پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت کے بغیر سندھ اپنے حقوق کے لیے جاگ رہا ہے۔

عین اس وقت جب کراچی پریس کلب کے باہر حدِ نگاہ تک یہ منظر موجود تھا، حیدرآباد میں سینکڑوں طلباء و طالبات سندھ کے تعلیمی اداروں میں شاگرد یونینوں کی بحالی کے لیے مظاہرہ کررہے تھے اور جس کی قیادت ایک لڑکی کر رہی تھی۔

اور میرے دل کی خوشی اس وقت اپنی انتہا پر پہنچ گئی جب پریس کلب سے میں سیدھی لیاری لٹریچر فیسٹیول پہنچی۔ جاتے وقت دل خوف سے دھڑک رہا تھا کہ لیاری تو وہ جگہ ہے جہاں پچھلے کئی برس سے بچے کلاشنکوف اٹھائے پھرتے تھے اور چھپے ہوئے دہشت گردوں کے حکم پر ٹارگیٹ پر برسٹ مارتے تھے۔ جہاں منشیات فروش عورتوں اور بچوں سے منشیات کا کاروبار کرواتے رہے ہیں۔ جہاں گلی گلی گینگ وار کا دوزخ جلتا رہا ہے۔ جہاں انسانی سر کو فٹ بال بنا کر خونی کھیل کھیلا گیا۔
جہاں پولیس بھی بکتر بند گاڑی کے بغیر نہیں جاتی تھی۔

لیاری وہ جسے غربت و جہالت اور خوف و وحشت کی تاریکی میں دھکیل دیا گیا۔ جہاں کے بلوچ کراچی کی قدیم آبادی شمار ہوتے ہیں۔
سنا تھا کہ پچھلے کچھ برسوں سے وہاں بینظیربھٹو یونیورسٹی قائم کردی گئی ہے مگر وہ کسی کام کی ہے بھی کہ نہیں، کچھ خبر نہ تھی!

لیاری کو جاتے طویل الجھے تنگ راستوں سے گزرتے ہوئے دل مٹھی میں جکڑا رہا۔
اور جب میں بینظیربھٹو یونیورسٹی کے احاطے کے اندر لیاری فیسٹیول میں پہنچی تو میلے میں آئے بچے کی طرح حیرت زدہ کھڑی دیکھتی رہ گئی۔

تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ ہزاروں کی تعداد میں لیاری کے بلوچ لڑکے اور لڑکیاں۔ چہروں پر ایک عزم اور یقین۔ ہر سیشن آڈیئنس سے بھرا ہوا۔ بیچ احاطے میں ہوتا مشاعرہ اور اسٹیج پر لیاری کے نوجوان شاعروں کے ساتھ ملک کے نامور شعراء!

ایک سیشن کے اسٹیج پر میں بھی شریکِ گفتگو تھی۔ بھرے ہوئے آڈیٹوریم میں لیاری کے نوجوان بلوچ چہروں کو دیکھتے ہوئے مجھے لگا ہر طرف چراغ ہی چراغ روشن ہیں!

ہال سے ایک بلوچ نوجوان نے سوال کیا کہ غربت کا علاج کیا ہے؟
میں نے بھرے حال کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا کہ یہ۔ یہ علاج ہے غربت کا اور ظلم و حق تلفیوں کے دباؤ کا، کہ خود اٹھ کر کھڑے ہوجاؤ اور گفتگو سے اپنے حقوق پر بات کرو اور بولتے رہو۔ سوچتے رہو اور بولتے رہو۔

لیاری کے اسٹیج پر بیٹھے ہوئے میرا دل جوشِ مسرت سے رقص کرتا رہا کہ زندہ ہے سندھو زندہ ہے۔
اور اب میں ہر وقت گنگناتی پھرتی ہوں کہ،
زندہ ہے سندھو زندہ ہے
زندہ ہے سندھو زندہ ہے

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah