عمران خان کے دفاع میں کالم


عمران خان کی سیاست، خیالات اور طرز سیاست، طرز حکمرانی غیر راویتی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جس سیاسی روایت اور کلچر نے تیزی سے فروغ پایا اور پنپ رہی تھیں۔ عمران خان نے ان تمام روایات اور کلچر کے برعکس پوزیشن لیتے ہوئے ضرب لگانے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان زیادہ تنقید اور مخالفت کی زد میں ہے۔ یہ ایک عمومی بات ہے کہ عوام سمیت ملکی دانشور، لکھنے والے، صحافی، سیاستدان اور مختلف دیگر طبقات حکمران طبقہ کی روش کے عادی ہوجاتے ہیں اور ساتھ چلنے لگتے ہیں۔ وہی روش اپنا لیتے ہیں جو حکمرانوں کی ہوتی ہے۔

اصولی طور پر ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ دانشور طبقہ کا کردار بڑا سنجیدہ نوعیت کا ہوتا ہے وہ حکمرانوں پر تنقید بھی کرتا ہے۔ حکمرانوں کے اچھے کاموں کی تعریف بھی کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر دانشور طبقہ حکمرانوں کی سمت درست کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ مخالفت برائے مخالفت اور بے جا حمایت دانشوروں کا طریق نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کے باخبر طبقات اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ امریکہ میں جب ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تو امریکی عوام کا بہت سخت ردعمل آیا تھا۔

کیوں کہ امریکہ میں بھی سنجیدہ طبقات ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کی توقع ہی نہیں کر رہے تھے۔ پھر توقعات کے برعکس ٹرمپ الیکشن جیت گیا۔ امریکہ میں آج بھی ٹرمپ پر بے تحاشا تنقید ہوتی ہے۔ ناپسندگی کا بھی کھل کر اظہار کیا جاتا ہے۔ ڈیموکریٹس ٹرمپ کے مواخذے کے لیے بھی پر تول رہے ہیں۔ عمران خان کی صورتحال بھی یہی ہے کہ پاکستان کا سنجیدہ طبقہ عمران خان کو وزیراعظم نہیں دیکھ رہا تھامگر غیر متوقع نتائج آئے اورعمران خان وزیراعظم بن گئے۔

ایسی صورتحال میں ایک صورت یہ تھی کہ عمران خان انقلابی طریقے سے اصلاحات کرتے اور فوری ایکشن کرتے ہوئے عوامی حمایت حاصل کرلیتے مگر عمران خان ایسا نہیں کرپائے۔ ظاہر ہے، عمران خان انقلابی نہیں۔ اس لئے عمران خان کی قبولیت میں مشکل پیش آرہی ہے۔ ایسے حکمرانوں کو تسلیم کرنے میں دیر ہی لگتی ہے اور آخر کار تسلیم بھی کرلیا جاتا ہے۔ جیسے امریکی عوام کی اکثریت نے ٹرمپ کو بھی تسلیم کرلیا ہے۔ ہمیں بھی اس حقیقت کو اب تسلیم کرلینے کی ضرورت ہے کہ عمران خان پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور وہ جو کچھ بھی کریں گے پاکستان کی بہتری کے لئے ہوگا۔

دوسری جانب مسائل سے نمٹنے کی بات ہے۔ جو حقیقت ہے کہ عمران خان کو جس تیزی کے ساتھ مسائل کے حل کے لئے لائحہ عمل اختیار کرنا تھا وہ نہیں کیا جا سکا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے بعد عمران خان کی حکومت ہے۔ جس میں پاکستان کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی ہلکی ہی سہی رمق موجود ہے۔ بے شک عمران خان کو مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہی مشکلات اور چیلنجز عمران خان کو سیکھنے اور سمجھنے کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔

حکومت کے گزشتہ سال کی نسبت رواں سال میں بہتری کے آثار نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم کی امریکہ میں مصروفیات سے کہیں بھی کسی منفی تاثر، نا اہلی، نالائقی اور ناتجربہ کاری دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ وزیراعظم ریشنل بنیادوں پرپاکستان اور کشمیر کا کیس لڑ رہے ہیں۔ بطور پاکستانی سربراہ مملکت وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ میں، پریس کانفرنس میں، امریکی صدر کے ساتھ اور سائیڈ لائن پر یہی کچھ کر سکتے ہیں جو وہ کر رہے ہیں۔

ابھی تک عمران خان نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا ہے کہ جس سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہو۔ پاکستان کے عوام کو یہ پیغام ملا ہو کہ تمہارا وزیراعظم نالائق ہے بلکہ عمران خان نے متوازن انداز میں دنیا کے سامنے پاکستان اور کشمیر کا مقدمہ پیش کیا ہے۔ ماضی میں پاکستان کے سب حکمران یہی طریقہ اختیار کرتے رہے ہیں جو عمران خان کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).