احساس کمتری اور خودیابی


یوں تو تمام جاندار ہی رویوں سے کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوتے ہیں مگر انسانی زندگی میں ان کی اہمیت کلیدی ہے۔ یہ رویے ہی ہیں جن کی بدولت انسان وہ سب بھی کر گزرتا ہے جس کا تصور اس کے لئے کبھی محال تھا۔ رویے ہمارے جذبات کی سطح اور رخ متعن کرتے ہیں اور یہی جذبات ماخوذ ردعمل یا ایڈاپٹو رسپناسس کا سبب بنتے ہیں اور یہ سب ایک سوچ پر منتج ہوجاتا ہے جو شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ خوشی اور خوف وہ دو بنیادی جذبات ہیں جس پر پوری زندگی کا دارومدار ہوتا ہے کہ انسان ساری زندگی ”سانپ سیڑھی“ کی عملی شکل کا کسی نہ کسی درجہ میں ہمہ وقت شکار رہتا ہے۔ خوشی پا لینے یا محفوظ رہنے کی ہو یا برعکس صورت حال میں خوف مسلط ہو، انسان ہر حال میں رویوں کے دوش پر اپنا سفر طے کرتا رہتا ہے جو اس کے اعتماد کی سطح تو متعن کر ہی رہے ہوتے ہیں، ساتھ ہی کامیابی جہاں اس میں احساس تفاخر پیداء کرتی ہے وہیں تسلسل میں ناکامی احساس کمتری کا سبب بھی بن جاتی ہے۔

احساس کمتری سوچ کی ایک خاص شکل ہے جو ناکامیوں، مسلسل نا امیدی، حالات کی ناسازگاری یا سوچ کے بند گلی میں مقید ہونے کے نتیجہ میں جنم لیتی ہے۔ بیسویں صدی کے ابتداء میں الفریڈ ایڈلر نے فرائڈ سے اختلاف کرتے ہوئے کئی نفسیاتی پہلو واضح کیے جن میں احساس کمتری کو بہت نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ ایڈلر کے بقول یہ احساس بنیادی اور ثانوی درجوں میں منقسم ہے۔ ریڈلک کے مطابق قوت حیات اور رجحان موت کے عوض برتری اور فوقیت کی آرزو بنیادی جبلتوں کی حیثیت کی حامل ہیں۔

انسان کسی نہ کسی اعتبار سے بنیادی طور پر احساس کمتری کا شکار ہے۔ اور وہ تمام عمر علم، اکتساب، تخلیق، تنقید، شہرت، قوت، مہارت، ظلم، جبر، حکومت اور دوسرے فوقیت کے طریقوں سے اپنے احساس کمتری پر رجحان برتری کی صورت میں غالب آنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اور یہی شخصیت کے ارتقا اور نمو کا راز ہے۔ یہی حرکت و عمل کی بنیاد ہے۔

احساس کمتری کے غلبہ کا اہم محرک فاعل کا زمینی حقائق کا پورا ادراک نہ ہونا یا انہیں نظر انداز کرنے کی روش اپنانا اور ان امور کا باریک بینی سے تجزیہ نہ کرنا ہے جو عوامل کی تراکیب اور اثر پذیری کا سبب بن رہے ہیں چاہے وہ ایسا کرنے سے قاصر ہو یا وہ اسے کسی بیرونی عنصر مثلاَ لالچ یا خوف کی وجہ سے عمداَ نظر انداز کررہا ہو۔ احساس کمتری بذات خود سوچنے کی ایک طرز کے علاوہ کچھ بھی نہیں جس کے نتیجہ میں وقوع پذیر رویہ اس سوچ کی بقاء یا فنا کا فیصلہ کرتا ہے۔

اگر فاعل اسی سوچ کو اپنائے رکھے تو اس کا یقین اس سے وابستہ ممکنہ تصورات جو عموماَ فرضی ہوتے ہیں، پہ رفتہ رفتہ پختہ ہوتا جاتا ہے۔ یہ تصورات اکثر و بیشتر منفی ہوتے ہیں اور یہی منفیت سست روی سے اُن ظاہر و پوشیدہ خوبیوں کو بھی گھنا دیتی ہے جن کی بدولت نہ صرف وہ حالات کا بہتر مقابلہ کرسکتا ہے بلکہ بسا اوقات مصائب کو زیر کرتے ہوئے مقاصد کی تکمیل بھی کرسکتا ہے۔

اس احساس کی پرورش کا ایک کریہ پہلو ایسے ظلّی رویوں کی پیدائش اور نمو ہے جو کسی بھی لحاظ سے سودمند نہیں جن میں حسد سب سے نمایاں ہے۔ حسد سوچ کا وہ انداز ہے جس کی سرے سے کوئی کلید ہی نہیں مگر یہ سراب کی مانند انسان کو اپنے پیچھے لگائے رکھتا ہے جو اسے مزید احساس کمتری میں مبتلا کردیتا ہے۔ حسد چونکہ خود تلخ سوچ ہے اس لئے اس کے نتیجہ میں واقع ہونے والا رویہ بھی تلخ ہی ہوتا ہے اور یوں تلخی غیر محسوس طرز پر مزاج کا حصہ بنتی جاتی جو نتیجۃَ مزید منفیت کا سبب بنتی ہے اور یوں منفیت کا ایک تسلسل چل نکلتا ہے جس میں دوسرا قابل ذکر منفی رویہ احساس برتری ہے۔

بقول الفریڈ ایڈلر، احساس کمتری اور احساس برتری ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں یعنی ہر احساس برتری دراصل احساس کمتری ہی کا منتج ہے۔ جب انسان اپنی سوچ کا رخ اور رویوں کا منہاج تبدیل نہ کرنے کے باعث احساس کمتری کی گرفت میں پھنستا چلا جاتا ہے تو یہ احساس سر اٹھانے لگتا ہے کہ وہ اکیلا ہی کیوں اس آگ میں جلے کوئی تو ہو جسے وہ بھی ایسے ہی بھسم دیکھ سکے۔ یہ قبیح خیال ایسے شخص کو خود سے کم درجہ کے افراد کے لئے خود ساختہ احساس فخر میں مبتلا کردیتا ہے جس میں کبر اور حقارت غالب اظہاریے ہوتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ اپنی خودساختہ کمتری کے ظاہر ہونے کا خوف بھی اسے بلاوجہ احساس برتری میں جکڑے رکھتا ہے جو صرف بظاہر کم حیثیت کے لئے ہی نہیں ہم پلہ اور اعلیٰ حیثیت کے لئے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اس سلسلہ کا تیسرا اہم ترین منفی رویہ خوشامد ہے۔ انسان خود سے بہتر تصور کیے جانے والاے افراد کے لئے غیر محسوس طریق پر خوشامد پرسی کا شکار ہوجاتا ہے چاہے اس کا اُن سے مطلب براری کا تقاضا نہ بھی ہو۔ جس طرح احساس کمتری احساس برتی کو جنم دیتا ہے بعینیہ اسی طرح ان کے بطن سے وجود حاصل کرنے والا خوشامد پرستی کا رویہ بھی خود سے بظاہر کم درجہ کے افراد سے خوشامد کی امید دلاتا ہے یعنی خوشامد پرست بالاخر خوشامد پسندی کا شکار بھی ہوتا ہے۔

خودیابی ایک ایسا عمل ہے جو کسی بھی منفی سوچ، منفی طرز عمل اور منفی ماخوذ رویہ کے خاتمہ کا واحد ذریعہ ہے۔ یہ نہ صرف اس لحاظ سے اہم بلکہ بحیثیت مجموعی شخصیت سازی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے اس لئے خودیابی کے بغیر آدمی کا انساں ہونا ناممکن ہے۔ خودیابی دراصل زندگی کی حقیقت اور مقاصد کی طرف لوٹنے کا نام ہے اسی لئے کسی کا تعلق چاہے کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے ہو وہ بالآخر سکون اور ذہنی آسودگی کے لئے خودیابی کے لئے سرگرداں ضرور ہوتا ہے۔

سکون یا ذہنی آسودگی تسکین سے ہے جو بیرونی عناصر سے عارضی طور پر تو مل سکتی ہے مگر اس میں دوام ممکن نہیں کہ یہ دراصل اندر سے پھوٹے کا نام ہے۔ جب انسان خودیابی حاصل کرلیتا ہے تو اسے منفی و مثبت سوچ سمیت وہ سارے طرز عمل اور رویے حقیقت کے آئینہ میں نظر آتے ہیں جس کی وجہ سوچ کا اعتدال پذیر ہونا ہے اسی لئے اس درجہ پر آدمی کا رجحان حق شناسی، حق گوئی، دیانتداری، راست بازی اور انصاف پسندی کی مائل ہونے لگتا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے جس کی بدولت عمر کے آخری حصہ میں عموماً آدمی یہ رجحانات اختیار کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).