عقیدہ، روحانیت، یقین اور حقیقت۔ ایک دلچسپ ڈائیلاگ


ظفر محمود وانی۔ محترم سفر معراج آنحضور جیسی ہستی اور ملکہ صبا کا واقعہ حضرت سلیمان جیسے عظیم پیغمبر کے ادوار میں پیش آئے اور یہ اصول روے زمین کے کسی دوسرے فرد کے لئے نہیں ٹوٹے، ویسے بھی یہ اعتقاد کی بات ہے اور اعتقاد کو کبھی مثال نہیں بنایا جا سکتا، نہ وہاں کسی سوال کی گنجائش ہوتی ہے، ہم تو ایسے اصولوں کی بحث کر رہے ہیں جو عام آدمی چاہے وہ کسی بھی مذھب سے تعلق رکھتا ہو، پر یکساں طریقے سے ایپلائی ہو سکتے ہیں۔

کیا کبھی کوئی بجلی کے بلب کو حکم دے سکتا ہے کہ کیونکہ تم کو ایک کریسچن تھامس ایڈیسن نے بنایا ہے اس لئے کسی دوسرے مذھب کے حامل کو روشنی نہ دینا۔ بحث کا موضوع اور پہنچ ایک عام آدمی کے مطابق ہونا چاہیے نہ کہ ملکوتی قوتوں اور خدا کے منتخب شدہ افراد کا موازنہ اور مثال عام آدمی کو اس سے بحث کے دوران دی جانی چاہئیں۔ اس لئے درخواست ہے کہ اس بحث یا گفتگو کو آفاقی یا افلاکی سطح کے بجائے عام آدم خاکی کی پہنچ تک ہی محدود رکھا جانا چاہیے اور دوران بحث روحانی مثالوں سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ یہ ایک علیحدہ بہت قابل بحث موضوع ہے لیکن جان کے خطرے کی قیمت پر۔ اور اتنی اپنی نہ ہمت ہے نہ اوقات۔

اظہر سید۔ زمان و مکان کے فلسفہ پر یقین کر لیں تو بیک وقت اپنے اپنے وقت میں مستقبل اور ماضی بھی چل رہا ہے اور ہال میں ہم خود موجود ہوتے ہیں اگر قدرت ہاصل ہو جائے تو مستقبل میں بھی جا سکتے ہیں اور ماضی میں بھی۔

اطہر مسعود وانی۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ اپنے کسی پیارے کی وفات یا اس پر کسی بڑی مصیبت پر اس کے عزیز کو دنیا کے کسی دوسرے حصے میں بیٹھے ہوئے بے چینی یا اسی طرح کے خیالات آتے ہیں، جس طرح میرے والد صاحب مظفر آباد میں رات کے وقت اچانک وفات پاگئے تو اس دوران میں راولپنڈی میں سونے سے قاصر تھا اور شدید بے چینی محسوس کر رہا تھا۔ یہ انسانی جسم کے جینز، ایٹموں کا کمال ہے، جو اپنی رشتے کے انسانوں کے جینز، ایٹموں سے مماثلت رکھتے ہیں، رابطہ رکھتے ہیں، لیکن ہم اس رابطے، تعلق کو نہیں جانتے، سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

انسان کو وہی کچھ معلوم ہوتا ہے جو اس نے اپنی پیدائش سے موجودہ عمر تک افراد، حالات و واقعات سے سیکھا ہوتا ہے۔ ہر انسان، نسل انسانی کا تسلسل ہے، جنگل میں رہنے والے انسانوں کی پنڈلیاں اور جبڑے مضبوط ہوتے تھے کیونکہ اس نے شکار کے پیچھے بھاگنا ہوتا تھا اور کچا پکا گوشت کھانا ہوتا تھا، آج انسان جسمانی طور پر اتنا توانا نہیں لیکن اس کا ذہن پہلے والے انسانوں کی نسبت بہت ترقی کر گیاہے۔

مطلب یہ کہ انسان کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے جسم کے جس حصے کا جس طرح استعمال کرتا جاتا ہے، اسی کے مطابق اس کی مخصوص صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اب یہ ہر انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنے جسم کے کس حصے کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا چاہتا ہے، کن صلاحیتوں کو نکھارنا چاہتا ہے، اپنی حیوانی خصوصیات کی ترقی چاہتا ہے یا اپنے ذہن، سوچ کو بہتر سے بہتر بنانے کا خواہاں ہے۔

ہر انسان کا نیا ماڈل، اپنے آباؤ اجداد کی ارتقائی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے اور اپنے ان خصائل سے انسان بے خبر ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کے وجود کا حصہ تو ہوتے ہیں لیکن اسے اس بارے میں کوئی معلومات حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے جینز میں اپنے سے منسلک اپنے سے پہلے انسانوں کے خصوصیات کا خلاصہ چلا آ رہا ہوتا ہے، جس سے انسان بے خبر ہوتاہے لیکن یہ اس کے وجود، شخصیت کا اہم حصہ ہوتا ہے۔

مشاہدے کے مطابق یقین کو ایک بڑی طاقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، ایک مثال کہ ملک کے چند علاقوں میں رواج ہے کہ جس پر چوری وغیرہ کا الزام ہو تو اس کو دھکتے انگاروں پر چلایا جاتا ہے، کوئی اس پرچلتے ہوئے جل جاتا ہے اور کوئی اپنے بے گناہی کے بھر پور یقین کے ساتھ صحیح سلامت رہتا ہے۔

لڑکپن کے دور میں ایک دن سر میں شدید درد کی وجہ سے ڈاکٹر کی پاس جا رہا تھا، ہمسائے میں ایک دوست کے والد جو اپنے گھر کے باہر کھڑے تھے، مجھ سے کہنے لگے کہ منہ کیوں بنایا ہوا ہے اور کہاں جا رہے ہو، میں نے بتایا کہ سر میں شدید درد ہے، ڈاکٹر کے پاس جا رہا ہوں، انہوں نے مسکراتے ہوئے قریب بلایا اور میرا سر اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور کہا ابھی ٹھیک کر دیتا ہوں، اچانک رک گئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ تمہیں یقین ہے کہ میرے دم کرنے سے تم ٹھیک ہو جاؤ گے؟

میں نے جواب دیا کہ نہیں، مجھے اس پر یقین نہیں۔ انہوں نے میرا سرچھوڑ دیا اور کہا تم ڈاکٹر کے پاس جاؤ۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے شدید تکلیف ہے، آپ دم کر دیں تاکہ فوری طور پر ٹھیک ہو سکوں، انہوں نے جواب دیا کہ تم میرے دم کرنے سے ٹھیک نہیں ہو سکتے کیونکہ تمہارا اس پر یقین نہیں ہے، تم ڈاکٹر کے پاس جاؤ، میں نے ان سے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ کے دم کرنے سے نہیں بلکہ اپنے یقین سے ٹھیک ہو سکتا ہوں، میری بات سن کر وہ مسکرانے لگے اور خاموش رہے۔

انسان کو جس قدر یقین ہوتا ہے، اسی قدر اس کو کسی کام میں کامیابی ملتی ہے۔ دراصل انسانی ذہن لامحدود قوتوں کا ایسا خزانہ ہے جس کا انسان اب تک نہایت قلیل حصہ ہی استعمال کرنے کے قابل ہوا ہے۔ آئن سٹائن، جس کی غیر معمولی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے اس کا دماغ محفوظ رکھا گیا، وہ بھی اپنے دماغ کا چند فیصد ہی استعمال کر سکتا تھا۔ جب انسان اپنے دماغ کا بیس پچیس فیصدحصہ استعمال کرنے کے قابل ہو جائے گا تو اس انسان سے کچھ بعید نہ ہو گا کہ وہ ہوا میں اڑنے لگے، سوچ کی رفتار سے کہیں بھی پہنچ جائے۔

ہر ذی الشعور انسان دنیا کی حقیقت سمجھنا چاہتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ انسان نے کسی بھی شے کے سب سے چھوٹے حصے ایٹم کے بیرونی اجزا کا تجزئیہ کافی حد تک کیا ہے تاہم ایٹم کے مرکزے، نیوکلیئس کے بارے میں اب تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جس دن ایٹم کے مرکزے کا راز کھل گیا، اس دن کائنات کا راز بھی کھل جائے گا۔

سکول، کالج دور میں، میں اس بات پر غور کرتا رہتا تھا کہ اللہ کس طرح شہ رگ سے بھی قریب اور ہر شے پہ محیط ہو سکتا ہے، کس طرح دلوں کے بھید بھی جان سکتا ہے۔ بی اے تک ایٹم کے بارے میں غور کرتے ہوئے خیال آیا کہ یقینا اللہ کا ایٹم کے مرکزے سے کوئی تعلق ہے۔

اب یہ سوال کہ خدا اور آخرت ہے بھی یا نہیں؟ جوں جوں اپنے اور کائنات کے بارے میں انسان کے علم میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، وہ یہ سمجھتا ہے ایسی شاہکار چیزیں خود بخود نہیں بن سکتیں کوئی قوت ہے جو ان کو بنانے والی، تخلیق کرنے والی ہے، ہاں اب یہ الگ بات ہے کہ انسانوں نے خدا، قدرت کے بارے میں انسانوں میں مختلف تصورات کو مضبوط بنایا ہے، جن میں سے کئی تصورات دنیاوی مفاد کے لئے ہی نظر آتے ہیں۔
دلچسپ اور اہم موضوع ہے اور اس پر ڈائیلاگ کے انداز میں بات چیت سے اس کی اہمیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3