عقیدہ، روحانیت، یقین اور حقیقت۔ ایک دلچسپ ڈائیلاگ


احتشام الحق شامی۔ کچھ عرصہ قبل کی بات ہے، دفتر کی دوسری جگہ منتقلی کا کام شروع تھا، ایک روز درمیانی عمر کی خاتون، جو دیکھنے میں ہی سفید پوش اور پریشان دکھائی دے رہی تھی دفتر میں داخل ہوئی۔ اسے بیٹھنے کو کہا اور آنے کا مقصد پوچھا۔ گویا ہوئی، گھر میں غربت اور بیماریوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، خاوند بے روز گار ہے اور کوئی ذریعہ معاش نہیں اس لئے میری مدد کریں۔ اس کی پریشانی میں ڈوبی گفتگو کوئی ایک گھنٹہ وقت پر محیط تھی لہذا میری جیب میں اس وقت اتنے پیسے نہیں تھے کہ اس کی طویل دکھ بھری کہانی سن کر صرف پانچ دس روپے دے کر اسے رخصت کروں، اس خیال سے کہ کہیں اس کی دل آزاری یا مایوسی نہ ہو، جبکہ خیال تھا کہ اس کی خاطر خواہ مدد کر سکوں۔

اس لئے اس کی تسلی تشفی کے لئے اسے کچھ ایسے کام کرنے کو کہے جو ویسے ہی ہماری زندگیوں میں روز مرہ کا حصہ ہیں۔ خاکسار نے خاتون کو وہی باتیں کرنے کو کہیں مثلا ہر وقت اللہ کو یاد کرتے رہنا، روزانہ گھر کی صفائی کرنا اور خود بھی پاک اور صاف رہنا، صبح سویرے اٹھنا، نماز پابندی سے پڑھنا جلد سونا اور جلد اٹھنا وغیرہ وغیرہ اور جیب میں غالبا اس وقت جو دس یا بیس روپے تھے، خاتون کو دیے اور اس کے جاتے ہوئے چند دعایہ کلمات اس کے حق میں ادا کیے جو ہم عام روٹین میں مہمانوں کو رخصت کرتے وقت ادا کرتے ہیں۔

تقریبا دس بارہ دنوں بعد جس دن ہم نے دفتر کی چابیاں مالک کے حوالے کرنا تھیں، وہی خاتون ایک اور خاتون کے ہمراہ دفتر آن پہنچی اور ساتھ ہی گویا ہوئی، حضرت صاحب میرے حالات میں تو بہتری آنا شروع ہو گئی ہے یہ میری ہمسائی ہے اب اس کے لئے کچھ کر دیں میرے دونوں ہاتھ فورا دونوں کانوں تک پہنچ گئے اور استغفار کا ورد کرنے لگا، خاتون کے آگے دونوں ہاتھ جوڑے کہ مجھے معاف کر دے اور گنہگار نہ کرے لیکن جتنا میں اسے منع کرتا رہا مریدنی مجھے اتنا ہی سچا پیر مانتے ہوئے اپنی بات منوانے پر اڑی رہی، اس دوران ایک گھنٹہ کا وقت گزر گیا، اب دفتر کو تالے لگا کر چابیاں مالک کے حوالے کر کے نکلنا تھا، سو جان چھڑانے کے لئے اس کے ساتھ آئی دوسری خاتون کو بھی وہی عمل کرنے کو کہا جو پہلی مریدنی کو بتائے تھے۔

کافی دنوں بعد جب کسی کام سے پرانے دفتر کی جانب جانا ہوا تو ساتھ آفس والے حاجی صاحب نے بتایا کہ، مرشد! آپ کا پوچھنے کے لئے بہت خواتین پلازے میں آتی ہیں، پوچھتی ہیں حضرت صاحب کہاں چلے گئے ہیں کیا آپ کی اجازت سے دفتر کا نیا ایڈریس انہیں دے دیا کروں کیونکہ آپ نے منع کر رکھا ہے، میں نے حاجی صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر درخواست کی کہ خدا کے واسطے میرے ساتھ ایسا ظلم نہیں کرنا۔ ہمارا معاشرہ اخلاقی گراوٹ، غربت اور ناخواندگی کا شکار تو تھا ہی لیکن ایسے کمزور اعتقاد اور عقیدے کے حامل مسلمانوں کا نہیں بلکہ نفسیاتی مریضوں سے بھی بھرا پڑا ہے۔ ہم کہتے ہیں یا اللہ میرا حال دیکھ تو اللہ کہتا ہے پہلے اپنے اعمال دیکھ۔

اظہر سید۔ انسانی ذہین اور دل کسی چیز پر سو فیصد یقین کر لے تو زمان و مکان میں تبدیلی آ جاتی ہے اور حالات و واقعات اس یقین کے مطابق ہو جاتے ہیں۔ موت کے بستر پر کوئی کسی پیارے کا منتظر اس کے آنے تک نہیں مرتا۔ ماں کو ہزاروں میل دور اپنے بچے پر آئی مشکل کی خبر دل کی گواہی سے مل جاتی ہے۔ چیدہ لوگ مستقبل دیکھ لیتے ہیں۔ یہ طویل بحث ہے شامی صاحب پر خاتون ایمان لے آئی اور اس کے پختہ یقین نے اس کے مسایل حل کر دیے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ بدعقیدگی نہیں بلکہ دل و دماغ کا یقین ہے۔ بھلے دیہاتوں میں مکار پیر معصوم لوگوں کی معصومیت سے فائدہ اٹھاتے ہوں لیکن یقینی طور پر اپنے یقین کی بدولت انہیں کچھ ریلیف ضرور ملتا ہو گا۔

خرم جمیل احمد۔ دعا سب کے لئے کرنی چاہیے اس کے لئے پیر ہونا ضروری نہیں ہمارے ہاں اکثر لوگ ضعیف العقیدہ ہیں اور تدبیر سے زیادہ تعویز پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اس کی بھی بے شمار وجوہات ہیں لیکن لوگوں کے دکھ تکالیف مصائب اور بیماریاں لاتعداد اور وسائل کا محدود ہونا سب سے بڑی وجہ ہے۔

ظفر محمود وانی۔

ہومیو پیتھک طریقہ علاج مکمل طور پر اسی پر بیس کرتا ہے۔ جس میں ذہن کو یہ یقین دلا دیا جاتا ہے کہ میرا علاج ہو رہا ہے تو اس یقین کی وجہ سے کئی بار افاقہ یا شفا بھی ہو جاتے ہے لیکن اس کی وجہ دوا ہرگز نہیں ہوتی بلکہ علاج کا یقین ہوتا ہے باقی کا کام جسم کا مدافعاتی نظام خود کر دیتا ہے اسی طرح توجہ کا کسی وجہ دے دوسری طرگ مبزول ہو جانا بھی تکلیف اور درد کے احساس کو کم کر دیتا ہے دم، تعویز وغیرہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں، علاج کے لئے پیسے نہ ہونا، یا استطاعت نہ ہونا عام طور پر لوگوں کو ”روحانی علاج“ کی طرف لے جاتا ہے، مجھے منٹو کے ایک افسانے کا کردار ”بابو گوپی چند“ یاد آتا ہے، وہ کہتا ہے مجھے دو جگہ جا کر سکون ملتا ہے ایک پیر کے آستانے یا مزار پر، اور دوسرے طوائف کے کوٹھے پر، کیونکہ ان دونوں جگہوں پر زمین سے چھت تک دھوکہ ہی دھوکہ بھرا ہوا ہوتا ہے، اور خود کو دھوکہ دینے کے لئے ان سے اچھی جگہیں نہیں ہو سکتیں۔

ہمارے دیہات میں عام طور پر لوگوں کو سانپ ڈس لیتے ہیں تو وہ کسی سپیرے یا پیر سے دم کرواتے ہیں اور کبھی ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں، لیکن دراصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ سانپ ستر فیصد غیر زہریلے ہوتے ہیں اور پاکستان میں بنیادی طور پر صرف چار قسم کے زہریلے سانپ پائے جاتے ہیں جن میں کریٹ، کوبرا، رسل وائپر، اور سا سکیل وائپر شامل ہیں اگر تو واقعی زہریلا سانپ کاٹ لے تو بغیر تریاق کے مریض ہلاک ہو جاتا ہے ایسے مریضوں پر دم یا تعویز کا کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن اکثر سانپ غیر زہریلا ہوتا ہے جس کے کاٹنے پر اگر دم یا تعویز نہ بھی کروایا جائے تو مریض معمولی انفیکشن کے بعد ٹھیک ہو جاتا ہے لیکن اس معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے کہ ہمیشہ خوف کا باعث لاعلمی ہوتی ہے تو کبھی سانپ کاٹے کے مریض کو خوف بھی ہلاک کر دیتا ہے۔

اسی طرح دعا کا معاملہ ہے انسان کے ذہن کے کام کرنے کا انداز کچھ کمپیوٹر سے ملتا جلتا ہے اور کمپیوٹر بغیر کمانڈ دیے ازخود کوئی کام نہیں کر سکتا اسی طرح دعا اوپر تو جاتی ہی ہے نفسیاتی طور پر یہ ہمارے ذہن کے لئے ایک کمانڈ کا کام بھی کرتی ہے اس وجہ سے کبھی یہ دعائیں پوری بھی ہو جاتی ہیں کیونکہ دعا بنیادی طور پر ہماری کسی خواہش پر ہی مبنی ہوتی ہے اور ذہن کو دعا کی صورت میں یہ کمانڈ ( حکم ) ملنے پر ذہن اس کو پورا کرنے کے لئے غیر محسوس طریقے سے کام شروع کر دیتا ہے اور کبھی اگر معاملات ”رینج“ میں ہوں تو پورے بھی ہو جاتے ہیں۔ خود ہمیں کبھی ایسا واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اندر دو شخصیتیں ہیں اور کسی بھی معاملے میں ان دونوں کی پسند اور سفارشات مختلف ہوتی ہیں، یہ دونوں حصے آپس میں بحث بھی کرتے ہیں اور دلائل بھی دیتے ہیں خیر یہ ایک الگ اور بہت دلچسپ موضوع ہے جو تفصیل کا متقاضی ہے۔

اظہر سید۔ وانی صاحب نے بحث کا آغاز کر دیا ہے حقیقت میں یہ دنیا خواب و خیال ہے یہ کوئی وجود بھی ہے اس کا کب تک زندگی کا یا دنیا کا سلسلہ جاری رہے گا بہت سارے تشنہ سوالات ہین اگر مادی وجود حقیقت ہیں تو خواب میں مستقبل کی صورت گری کیسے ہو جاتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3