کاسۂ چشمِ حریصاں پُر نہ شُد یا انسان کو آخر کتنا کچھ چاہیے؟


انسان کے اندر لالچ کے عنصر سے انکار ممکن نہیں مگر پھر بھی زندگی گزارنے کے لئے آخر انسان کو کتنا کچھ چاہیے ہے؟ ۔ کوئی حد تو ہوتی ہوگی۔ اگر ہم ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہزوروں کو اس کارِ شر میں مبتلا پائیں گے۔ سینکڑوں پہ لوگوں کا حق کھانے اور کالا دھن بنانے کے الزامات ہوں گے۔ حال ہی میں سندھ کے ایک حکومتی عہدیدار سے کروڑوں کی برآمدگی ہوئی۔ اس کی زندگی کے لوازمات و تعیشات جان کر سب انگشتِ بدنداں ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر اس لامحدود دولت کی ضرورت کیا ہے؟

 کیا اس لالچ کی کوئی انتہا بھی ہے؟  سچ کہتے ہیں کہ زندگی کو ضرورت سمجھ کے گزارو نہ کہ خواہش۔ کیونکہ ضرورت فقیر کی بھی پوری ہوسکتی ہے مگر خواہش بادشاہ کی بھی ادھوری رہ سکتی ہے۔ غور کریں تو ایک انسان کو رہنے، کھانے اور پہننے کے لئے کتنے لوازمات درکار ہیں۔ سونے کے لئے ایک کمرہ بلکہ ایک بیڈ، کھانے کے لئے مناسب اشیائے خورونوش اور پہننے کے لئے چند سوٹ اور پھر بنیادی ضرورت کی اشیائے استعمال۔ بس کسی بنیادی حاجت کی محرومی باقی نہ رہے۔

مگر ہم دیکھتے ہیں کہ سماج میں ایلیٹ کلاس، متمول و متوسط طبقات، اور غریب سبھی اپنی چادروں کا خیال کیے بغیر پاؤں پھیلانے کے در پے ہیں۔ اپنی زندگیاں اجیرن کیے ہوئے ہیں یا پھر ہر جائزو نا جائز طریقوں سے مال اکٹھا کرنے میں لگے ہیں۔ در حقیقت یہ جہنم کی آگ اکٹھا کرنے کے مترادف ہے۔ اقبال ا پنا خواب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنت میں دیکھا کہ آگ نہ تھی۔ فرشتے سے وجہ دریافت کی تو جواب پایا ”دوزخ کی اپنی کوئی آگ نہ ہے ہر شخص دنیا سے اپنے حصے کی آگ خود لے کر آتا ہے“۔

دنیا میں بھی ایسے افراد سد ا خوش نہیں رہ پاتے اور سو برس کا سامان رکھنے کے با وجود پل بھر میں خاک ہوجاتے ہیں۔ بڑے بڑے یوسفِ زمان، کل کی باتیں بن کر رہ جاتے ہیں۔ اکٹھی کی گئی دولت ہی وبالِ جان بن جاتی ہے۔ حکایت ہے کہ اک بادشاہ کی کنیز شاہ کے کمرے کی صفائی کرتے ہوئے اس کے نرم بستر پہ بیٹھی تو اس کی آنکھ لگ گئی۔ اسی دوران بادشاہ بھی آدھمکا اور دیکھ کر سخت آگ بگولہ ہوا۔ غصے سے کنیز کو چند چھڑیاں مار دیں۔

کنیز ہنسنے لگی تو شاہ نے حیرت سے اس گستاخی کی وجہ دریافت کی۔ کنیز نے کہا ”ہنسی اس بات پہ ہوں کہ میں ایک لمحہ اس بستر پہ سوئی تو مجھے سزا ملی اور آپ برسوں سے اس پہ سو رہے ہیں، آپ کا کیا حشر ہوگا“۔ فی زمانہ دیکھیں تو تخت اور تختہ ویسے بھی لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔ دنیا میں ایسے لاکھوں لوگ ہیں جنہیں اپنی دولت کا شمار نہیں۔ ہزاروں گاڑیاں، ہیلی کاپٹر، زمینیں، محل، ڈالرز، ہیرے جواہرات مگر سب کچھ چھوڑ کر دو گز کپڑالئے ایک مٹی کا ڈھیر انجام ہے۔

قران مجید میں وعید ہے کہ انسان کو لالچ نے اس قدر گھیرا کہ قبریں جا دیکھیں۔ یہاں ہر شخص، ہر عہدے دار، ہر راعی اور ہر صاحبِ اختیار دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹتا ہے اور مآل وہی ہاتھ خالی لے کر زمین اوڑھے سو جاتا ہے۔ اس کے بر عکس اگر کوئی اپنے وسائل پہ قناعت کرلے تو بھی چار روزہ خوشحال زندگی ممکن ہے۔ مولانا روم کی مثنوی کا یہ شعر اس حوالے سے کمال کی وضاحت اور راہ نمائی کا حامل ہے۔

کاسہٗ چشم ِ حریصاں پُر نہ شُد تا صدف قانع نہ شُد پُر دُر نہ شُد

ترجمہ۔ لالچی آنکھ کا کاسہ کبھی بھی نہیں بھرسکتا اور جب تک سمندر میں موجود صدف اپنے مطلوبہ قطرے پہ قناعت نہ کرے اور مزید قطروں کی خواہش اور لالچ میں اپنا منہ کھلا رکھے تو وہ کبھی بھی اپنے اندر موتی پیدا نہیں کر سکتی۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں قناعت کی دولت سے نوازے اور لالچ اور بد عنوانی کی لعنت سے محفوظ رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).