اکیلا ہونا اور تنہا ہونے میں فرق ہے


Alone is not the same as being lonely

ہم اکیلا اور تنہا کو ایک ہی معنی میں لیتے ہیں۔ حالنکہ ان میں فرق ہے۔ اکثر لکھنے والے بھی ان دونوں الفاظ کو ہم معنی سمجھتے ہیں۔ اکیلا اور تنہا گرامر کی رو سے صفات ہیں۔ یہ کسی کی حالت بتاتے ہیں۔ اس فرق کو سمجھنے کے لئے چند مثالیں۔

اکیلا۔
فرح آج اکیلی اسکول گئی کیونکہ اس کی دوست بیمار تھی۔
شان نے سارا سامان اکیلے ہی اٹھا لیا۔
خالہ کو اکیلے بازار جانا اچھا نہیں لگتا۔
بچوں کو اکیلا مت چھوڑیں۔

تنہا
بیوی سے جدائی کے بعد وہ تنہا ہو گیا۔
ایران خطے میں تنہا رہ گیا۔
وہ تک و تنہا اپنے موقوف پر ڈٹی رہی۔
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا۔

میں نہ ڈاکٹر ہوں نہ نفسیات کی ماہر۔ نفسیات سے اتنی شناسائی ہے کہ یہ گریجویشن میں میرا اختیاری مضمون تھا۔ اس مضمون سے دلچسپی پیدا ہو گئی اور میں نے اپنے طور پر مطالعہ کرنا شروع کیا۔ کچھ خود پر اور کچھ دوسروں پر گزرے واقعات کو دیکھا، محسوس کیا اور انہیں جانچنے کی بھی کوشش کی۔ میری کسی بھی بات کو حتمی مت سمجھیں اور نہ ہی یہ ہر کسی پر لاگو ہے، خود بھی تجسوس اور جستجو کریں۔

میرا خیال ہے کہ اکیلا ہونا کوئی منفی بات نہیں۔ اکیلا ہونا کوئی خطرناک بات بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہ انسانوں کے لئے ایک پرڈیکٹیو کیفیت ہے۔ جتنے آیئڈیاز اور تخلیقی کام ہیں وہ انسان اکیلے میں انجام دیتا ہے۔ آپ خود اپنے آپ کو ٹٹولتے ہیں۔ کچھ خود کلامی بھی کرتے ہیں۔ اردگرد پر طائرانہ نہیں بلکہ گہری نظر ڈالتے ہیں۔ آپ اپنے رویئے اور ردعمل کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔ کچھ غلط تو نہیں کردیا؟ کسی کے ساتھ زیادتی تو نہیں ہو گئی؟

کیا کچھ بہتر کر سکتے ہیں؟ آگے کا سوچتے ہیں۔ اگلے دن کا پروگرام بناتے ہیں۔ اکیلے رہ کر بھی آپ ساحل سمندر کی آتی جاتی لہروں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ پارک میں پرندوں کی چہچہاٹ، درختوں کا سایا، پھولوں کے رنگ آپ کے اندر خوشی بھر سکتے ہیں۔ کتاب کا مطلعہ، کوئی فلم یا موسیقی یہ بھی اکیلے میں مزا دیتے ہیں۔ یہ اکیلا پن آپ کو توجہ مرکوز رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اکیلے میں آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ آپ خود کرتے ہیں اور اپنے ہی لئے کرتے ہیں۔

اور اگر آپ اکیلے رہتے ہیں تو پھر آپ اکیلے پن کے عادی بھی ہو جاتے ہیں۔ جیسے کہ میری ساس صاحبہ۔ چوراسی پچاسی سال عمر ہے۔ تہران میں اکیلی رہتی ہیں۔ بچوں اور بچوں کے بچے کے ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اپنے لئے یہ طرز زندگی چنا ہے۔ ہمارے پاس ایک مہینے کے لئے آتی ہیں۔ پہلا ہفتہ تو نہایت خوشگوار گزرتا ہے۔ ایران سے لائی ہوئی سوغاتیں اور تحایئف نکال کر بانٹتی ہیں۔ ڈھیروں باتیں ہوتی ہیں۔ دوسرا ہفتہ گھومنے پھرنے اور ملنے ملانے میں گزرتا ہے۔ تیسرے ہفتے میں وہ ہوم سک ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ کچھ وقت شاپنگ میں مصروف رہتی ہیں۔ چوتھا ہفتہ شروع ہوتے ہی سوٹ کیس کھل جاتا ہے اور پیکینگ شروع ہو جاتی ہے۔ انہیں اپنا گھر، اپنا کمرا، اپنا پلنگ اور اپنا بستر شدت سے یاد آنے لگتا ہے۔ کیونکہ وہ ان سب کی عادی ہو چکی ہیں۔

لیکن اکیلے پن اور تنہائی میں جو باریک لایئن ہے وہ کبھی کبھی کراس ہونے لگتی ہے اور آپ ایک کیفیت سے نکل کر دوسری میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ایسا وقتی بھی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ آپ شاپنگ پر جایں، کوئی لباس پسند آیا تو دل میں آیا کاش اس وقت کوئی دوست ساتھ ہوتا تو مشورہ کر لیتے۔ یا کسی جوڑے کو ہنستے بولتے دیکھ کر آہ نکلے کہ کاش ہمارا بھی کوئی اپنا ہوتا۔ میری ساس صاحبہ کے ساتھ بھی کبھی کبھی یہ ہوا کہ فون پر تنہائی سے گھبرائی ہوئی لگیں۔

لیکن جب مستقل طور پر ہمارے پاس آنے کی بات ہوتی تو وہ پھر کترا جاتیں۔ اکیلے رہنے کی اگر عادت ہو جائے تو کسی کا بھی مستقل ساتھ نا قابل قبول ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر آپ اکیلے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کے کوئی دوست بھی نہ ہوں۔ آنا جانا، ملنا ملانے رکھیئے۔ اگر آپ سب کے لئے اپنے دروازے بند کر دیں گے تو آپ اکیلے پن سے نکل کر دشت تنہائی میں داخل ہو جایں گے۔

اکیلے پن کو ایک جسمانی حالت سمجھ لیں جبکہ تنہائی ایک ذہنی کیفیت ہے۔

تنہائی وہ کیفیت ہے جو آپ کو لوگوں کے ہجوم میں بھی الگ تھلگ کر دیتی ہے۔ آس پاس ہنستے مسکراتے لوگوں کے بیچ بھی آپ اداس اور دکھی رہتے ہیں۔ کوئی محفل کوئی اجتماع آپ کو خوش نہیں کرتا۔ ہے تو یہ تنہائی لیکن یہ اکیلی بھی نہیں آتی، اپنے ساتھ اور بھی مسلئے لاتی ہے۔ دل بوجھل رہتا ہے، نیند کی کم ہوجاتی ہے، یادداشت کمزور اور خیالات میں الجھاؤ سا رہتا ہے۔ ایک نا معلوم سی اداسی گھیرے رہتی ہے۔ دل کے ساتھ سارا ماحول بھی بجھا بجھا سا لگتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے شاعر ناصر کاظمی کہتے ہیں۔

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر

اداسی بال کھولے سو رہی ہے۔

یا

دل تو میرا اداس ہے ناصر

شہر کیوں سایئں سایئں کرتا ہے۔

ایسی شدید اداس کیفیت عام طور پر اس وقت طاری ہوتی ہے جب کوئی اپنا ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ کسی کے عادی ہوگئے اور اب وہ نہیں رہا۔ یہ نقصان برداشت سے باہر ہو رہا ہے۔ اور آپ بار بار خود سے سوال کرتے ہیں کہ یہ میرے ساتھ ہی کیوں ہوا۔ اور پھر آپ خودترسی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ دوسروں کو خوش دیکھ کر آپ کو اچھا نہیں لگتا۔ فیس بک پر خواہ آپ کے بیسیوں دوست ہوں لیکن یہ سب مل کر بھی آپ کو تنہائی کے اس خول سے باہر نہیں نکال سکتے۔

بھری محفل میں تنہائی کا عالم ڈھونڈ لیتا ہوں

جہاں جاتا ہوں اپنے دل کا موسم ڈھونڈ لیتا ہوں

تنہائی زیادہ تر بڑی عمر کے لوگوں کو گھیرتی ہے۔ زندگی کا ساتھی بچھڑ گیا۔ دوست دور جا بسے۔ بچے اپنی اپنی زندگیوں میں مگن۔ یہ سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن دردناک بات یہ ہے کہ نوجوان بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ اور اس کی وجوہات یقینی طور پر نفسیاتی اور ماحولی ہیں۔ نوجوانوں کی تنہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ کسی بھی وجہ سے وہ معاشرے سے کٹ جاتے ہیں۔ اور انتقامی خیالات میں الجھ جاتے ہیں۔ طبعیت میں تشدد آ جاتا ہے وہ دوسروں اور بلکہ خود اپنے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

تنہائی کسی کے ساتھ رہ کر بھی محسوس ہو سکتی ہے۔ سب کچھ ہے۔ آس پاس لوگ بھی ہیں، اچھے دوست بھی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ اندر کی تنہائی نہیں جاتی؟ لگتا ہے کوئی بھی آپ کی بات نہیں سمجھتا۔ آپ کسی سے بھی اپنے دل کا حال نہیں کہہ سکتے؟ اگر آپ تنہائی کے اس درجے پر پہنچ چکے ہیں تو آپ کو پروفیشنل مدد کی ضرورت ہے۔ یہ تنہائی جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔ انسان معاشرتی جانور ہے وہ یوں تنہا رہنے کے لئے دنیا میں نہیں آیا۔

ہم سب کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ ذرا خول سے نکل کر باہر آیئے۔ اردگرد نظر دوڑایئے۔ شاید کسی کو آپ کی ضرورت ہو۔ شاید آپ کسی کی تنہائی دور کرنے کا باعث بن جایں۔ اگر آپ اکیلے ہیں تو کہیں تنہا بھی نہ ہو جایں اور اگر آپ فیملی اور دوستوں کے ہوتے ہوئے بھی خود کو تنہا دیکھتے ہیں تو خیال رکھیں کہ آپ پھر اکیلے بھی ہو سکتے ہیں۔

شہر میں کس سے سخن رکھیئے، کدھر کو چلئے

اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے، گھر کو چلئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).