بے راہ روی یا آزادی فکر کا عروج


ہمارے ہاں پرانے دوست ملتے ہیں تو جب تک روز ابر و شب ماہ تاب میں اٹھائے سبو اور کسی مہ جبین سے جانے انجانے میں ٹکرائی نظر کا ذکر نہ ہو لگتا ہے حال احوال ہوا ہی نہیں۔ مگر پردیس بالخصوص یورپ اور امریکہ میں جب کسی لنگوٹیے سے ملاقات ہوتی ہے تو ہاتھ کی جنبش تو دور کی بات ساغر و مینا کی طرف نظر التفات سے بھی اجتناب کا شکرانے اور تفاخر کے ساتھ ذکر موضوع سخن ہوتا ہے۔

مے و مہ جبین کا ذکر رند ہی نہیں اہل خرد و اہل منبر بھی جب تک نہ کریں دلیل کی تان نہیں ٹوٹتی۔ مگر قحط کا عالم ایسا کہ کوئی وہاں آسی کوئی یہاں متلاشی۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ پچھم میں مقیم ہم وطن قدم قدم پر میخانے اور نظر نظر نازنینوں کے جلوئے دیکھ کر شاید اب دل بہلانے والی حقیقت کا حال جان گئے ہیں اس لئے وہ نظر چرا کر، پہلو بچا کر چلنے کو ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ مگر ان کی ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پر دید و شنید کی مصروفیات دیکھ کرپتہ چلا کہ یہ ایمان افروزی کی تبلیغ، نشر و اشاعت کے متکلین و مبلغین کی پند و نصا ئح کا اثر ہے جو سمندر پار اتنا سرائت کر گیاہے۔

ہر چند کہ بادہ خواری باعث تفاخر نہیں مگر یہ علت ہر دور میں کم و بیش ہر معاشرے میں جاری رہی۔ ہم پاکستان میں آنکھ بند کیے بیٹھے ہیں جبکہ راولپنڈی، کوئٹہ اور کراچی میں لگے تین کارخانے شپ و روز اس کی پیداوار جاری رکھ کر بھی طلب پوری نہیں کر سکتے اور اتنی ہی باہر سے قانونی اور غیر قانونی طور پر درآمد کی جاتی ہے۔ ہاں البتہ ترقی یافتہ دنیا میں کسی بالغ عاقل شخص کو میخواری سے نہیں روکا جاتاجب تک کہ اس کے اس فعل سے کسی دوسرے شخص کو شکایت نہ ہو اور نقصان کا احتمال نہ ہواس لئے شراب پینے پر پابندی نہیں مگر پی کر گاڑی چلانے کی اجازت نہیں۔

اہل و عیال کے ساتھ مغرب میں رہائش پزیر متوسط طبقے اور بلیو کالر مزدوری کرنے والے احباب بچوں کے جوان ہونے پر فکر مند ہوجاتے ہیں کہ کہیں مغرب کی چکاچوند روشنی میں ان کی انکھیں چندھیا نہ جائیں اور بچے مغرب کی بے راہ روی میں بہہ کر خاندان اور مذہب کے لئے باعث تاسف نہ بن جائیں۔ کچھ تو بچے جوان ہوتے ہی واپسی کا ٹکٹ کٹوادیتے ہیں تاکہ ملک میں ہی بچوں کی پرورش میں سونے کے نوالے کے ساتھ شیر کی نگاہ بھی رکھی جا سکے جس کی یورپ اور امریکہ میں اجازت نہیں۔

موضوع سیاست ہو تو یورپ میں رہنے والے پردیسی وطن میں اہل سیاست سے بیزار اور جمہوریت سے شاکی نظر آتے ہیں۔ یورپ کی جمہوری ریاستوں میں بسنے والے پاکستانیوں کو اپنے ملک کی شان و شوکت صرف آمریت یا کم از کم کسی دبنگ حاکم کے تحت نشخصی نظام حکومت میں ہی نظر آتی ہے۔ جمہوری ممالک کے آئین اور قانون کے مضبوط حصار میں ہر وقت احساس تحفظ اور آزادی کے ساتھ رہنے والے تارکین وطن اپنے ملک میں جمہوریت کو کفر، آئین اور دستور کو بوجھ سمجھتے ہوئے اس کو توڑنے والے کو ہی اپنا ہیرو سمجھتے ہیں۔

ہم پاکستان جیسے تیسری کہلانے والی دنیا میں رہتے ہیں اور ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے پہلی دنیا کی صف میں کھڑا ہونے کی اپنی سی کوشش میں بھی لگے رہتے ہیں۔ خود کو ترقی پزیر کہہ کر پھولے بھی نہیں سماتے اور ہاتھ میں کشکول لئے امداد کے لئے دنیا بھر میں مارے مارے پھرتے بھی ہیں۔ ہمارے اہل علم و خرد قرون وسطیٰ کی نشاۃ ثانیہ کے دور عتیق کی قنوطیت میں گرفتار ہر وقت لبوں پر یہ یہ شکایت لئے پھرتے ہیں ؛

مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

ہم بھول جاتے ہیں یا ہمیں بتایا نہیں جاتا کہ اگر دو چار کتابوں سے اہل یورپ نے ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھی ہے تو یہ ان کا کمال جستجو ہے وگرنہ ہمارے ابا کاجو علم یورپ میں خرد افروزی کی بنیاد بنا اس کا بڑا ذخیرہ ہم نے بغداد، مصر اور خراساں میں جب بہا ڈالا تو دریا کا پانی اور جلایا دیا تو بادلوں کا رنگ سیاہ ہوگیا تھا۔

جس کو ہم بے راہ روی کہتے ہیں وہ آزادی فکر کا وہ عروج ہے جس میں انسان کسی اور کی تفصیل، تاویل اور تشریح کے بجائے اپنی عقل و شعور کو بروئے کار لاتا ہے۔ یہ سب یورپ میں ابلاغ کے فروغ سے ممکن ہوا ہے جب نایاب اور کمیاب کتابیں چند لوگوں کے ہاتھوں سے چھاپہ خانہ کی ایجاد کے بعد ہر ہاتھ میں آگئیں۔ انٹرنیٹ کے آنے کے بعد کتب خانے ہتھیلی میں ہر وقت دستیاب رہتے ہیں تو پھر کسی اور پر انحصار کیسا۔

دیار غیر جانے اور وہاں رہنے والے تارکین وطن ایک بات پر متفق ہیں کہ وہاں کام کرنے والوں کے حقوق کی ضمانت ہے۔ مگر بات کرتے ہوئے پھر سے مغالطے کا شکار رہتے ہیں کہ یہ سب اہل مغرب نے مسلمانوں سے مستعار لیا ہوا ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ ہمارے ہاں یہ سب کب کہاں تھا تو چند سنی سنائی حکایات سے بات آگے بڑھ کر نہیں دیتی۔

مزدوروں کے حقوق کے لئے کی گئی جدوجہد اور دی گئی قربانیوں کو صرف نظر کرکے صرف یہ کہہ دینا کہ یہ صرف ہماری نقل ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں اس پر عمل کیوں نہیں ہوسکا۔ اس کا جواب بھی بڑا دلچسپ ملتا ہے کہ ہمارے ہاں کوئی ایسا راہنما آیا ہی نہیں جو ان سنہری اصولوں پر عمل کرتا۔ ہمارے دانشور بھی یورپ کی سماجی ترقی کے پیچھے شعوری کاوشوں اور ارتقائی عمل کو سمجھنے کے بجائے ایک نابغہ کی تلاش میں رہتے ہیں جو ہمارے ہاں بھی ایسا نظام لائے جیسا وہاں مروج ہے۔ یورپ میں لینن، موسلینی اور ہٹلر جیسے قد آور شخصیات کے مجسمے پاش پاش ہوئے بھی ایک عرصہ ہوا اور اب وہ اپنی ترقی کو عام لوگوں سے منسوب کرتے ہیں جنھوں نے کسی ہیرو کا انتظار کیے بغیرانقلاب اور ارتقائی عمل میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔

جس ابن رشد اور ابن سینا کو ہم آج اپنا ابا کہتے نہیں تھکتے ہیں ان کی ہمارے چچاؤں نے ایسی تضحیک کی کہ اس کے ذکر سے قلم کو بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ ابا کے علم کے موتی جب ہمارے پاس آئے تو الحاد قرار دے کر آگ میں جلا دیے یا دریا میں بہا دیے جب ان کے ہاتھ آئے تو شرح صدر سمجھ کر سینے سے لگا لیا اور کائنات کے راز پالئے۔ ابن رشد کی شرح سے لی صرف ایک بات نے ریاست کو چرچ کی سینکڑوں سالوں کی قید سے آزادی دلائی تو وہاں بسنے والے لوگوں نے خود اپنے لئے آزادی کی راہیں تلاش کیں جس کو ہم یورپ کی نشاۃ ثانیہ کہتے ہیں۔ یہ اسی نشاۃ ثانیہ کا ثمر ہے کہ انسان اپنی فکری آزادی کے عروج کی طرف گامزن ہے جس کو ہم مغرب کی بے راہ روی کہہ کر ہنوز مسترد کرتے ہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan