جنت کی طرف کھلنے والا دروازہ


تصوف کی کتاب میں محبت کا باب حضرت رابعہ بصری نے شامل کیا۔ یوں کہئے انھوں نے ایک ہی ڈگر پر چلنے والوں کو ایک ایسی سمت دکھائی جس کی چاہ ان کے من میں موجود تو تھی مگر وہ اس تک رسائی پانے میں ناکام تھے۔ رابعہ بصری نے وہ دروازہ کھولا جس کے پار ٹھاٹھیں مارتا چاہت کا سمندر ظاہری عبادتوں اور وظیفوں میں مصروف طالبوں کو سیرابی کی دعوت دے رہا تھا۔ پیاس اور پانی کی کشش دو طرفہ تھی۔ اس سے پہلے تصوف، فرضی اور نفلی عبادات، لاحاصل کو حاصل کرنے کے لئے کڑی ریاضتوں، چِلّوں، فاقہ کشی اور نفس کے جبلی تقاضوں کے خلاف برسرِ پیکار تھا۔

خود کو پاک کرنے کی جدوجہد میں خود کو مارنے کی مشق شروع ہو چکی تھی۔ تمام مذاہب کے صوفی خدا کی خوشنودی اور قرب کے حصول کے لئے ذات کی پاکیزگی، نفی ¿ ذات اور عبادات کو ضروری خیال کرتے تھے۔ وہ اس مقصد کے لئے لمبے جوگ لیتے، دریاؤں اور بیابانوں میں مہینوں توجہ کے اِرتکاز کے لئے برسرِ پیکار رہتے۔ انھیں جزوی علم اور اطمینان حاصل ہو ہی جاتا تھا مگر سمندر اور قطرے کے اِک مک والی کیفیت سے محروم تھے۔

اصل میں یہ سب لوگ ایک مشکل راستے کا انتخاب کر چکے تھے اور اس رستے کا دروازہ ان کی توجہ نے کھٹکھٹانے کی کوشش ہی نہ کی جو بہت آسانی سے کھل سکتا تھا۔ وہ دروازہ محبت کی سلطنت میں داخلے کا وسیلہ تھا جس میں لطف و عنایات، جذبات، احساسات اور سرشاری کے باغات تھے اور یہیں وہ سارے راز پڑے تھے جن کی حقیقت کے رستے پر چلنے والوں کو ازل سے تمنا رہی ہے۔ محبت کے اس رستے کا دروازہ حضرت رابعہ بصری نے کھولا اور کہا کہ ہر شخص اپنے دل کی نگاہ سے اسے کھول سکتا ہے۔

برسوں کی خواہش کے بعد جب ان پر کرم کا دَر وا ہوا اور حقیقت نے اپنا راز افشا کیا تو وہ خاموش نہ رہ سکیں۔ انہوں نے اپنے تجربے، اِلہام اور آگہی کو پوری دنیا کے انسانوں تک پہنچانے کے لئے ایک انوکھا طریقہ اپنایا کیوں کہ جب حقیقت واضح ہو گئی تو ان کے لئے منافقت کا نقاب پہن کر خود کو معاشرے کواور خالق کو دھوکہ دینے والے قابل برداشت نہ رہے تو ایک دن وہ مصر کے بازار میں اپنے ایک ہاتھ میں آگ اور دوسرے میں پانی کا پیالہ لے کر غصے سے نکل کھڑی ہوئیں۔

یہ ظاہر پرستوں کے خلاف احتجاج کا نرالا ڈھنگ تھا ورنہ دوزخ اور جنت کسی مقام پر رکھی ہوئی نہ تھی۔ کسی نے پوچھا محترمہ آپ یہ آگ اور پانی لے کر کہاں جا رہی ہیں؟ فرمانے لگیں، میں اس پانی سے دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے جا رہی ہوں تا کہ لوگ کسی سزا کے خوف یا ڈر سے عبادت نہ کریں بلکہ دل سے اسے چاہیں اور اس آگ سے جنت کو جلانے جا رہی ہوں تا کہ لوگ جنت کی طلب اور فائدے کے لئے عبادت نہ کریں۔

کچھ دن پہلے بابا فرید گنج شکرؒ کے عرس مبارک کی تقریبات دیکھنے کا موقع ملا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وہاں ایک دروازہ ہے جسے بہشتی دروازے کا نام دیا گیا ہے جو عرس کے موقع پر مخصوص وقت کے لئے کھولا جاتا ہے۔ دنیا بھر سے عقیدت مند بابا فریدؒ کی محبت میں کم اور بہشتی دروازے کی آس میں زیادہ وہاں جمع ہوتے ہیں۔ اس بار اخباروں اور ٹی وی سکرینوں پر دنیا نے دیکھا کہ اس دروازے سے گزرنے کی تگ و دو میں لوگ کس طرح دھکم پیل ہوتے رہے، ایک دوسرے کو نیچے گراتے ہوئے وہاں تک پہنچنے کی کوشش کر تے رہے۔

اس سارے عمل میں خدمتِ خلق، انسانی رواداری، انسانی قدریں کہیں نظر نہیں آئیں۔ بس وحشت کا عالم تھا بالکل ویسا ہی جیسا کھانا کھلنے پر ہوتا ہے۔ کیا جنت بھی بریانی کی ایسی پلیٹ بن گئی ہے جس کا اثر تادیر رہنے والا ہے؟ جنت صرف گناہوں سے بچنے اور نیک راہ پر چلنے کا ذریعہ نہیں ہے۔ جنت کے ساتھ بھی ہمارے ذہنوں میں بہت سارے ابہام ہیں۔ ہم ایک ایسی زندگی کے خواہاں ہیں جس میں ہمیں بہت ساری سہولتیں میسر ہوں گی۔ سہولتوں کا لفظ میں نے احتیاطً سے برتا ہے ورنہ اکثر اس کے لیے کچھ اور لفظ استعمال کیے جاتے ہیں جن کی تشریح بہت دور نکل جاتی ہے۔

ہماری ترجیحات ظاہر تک محدود ہیں یعنی خاک کے پتلے کی ضروریات ہی اصل مقصد ہے اس لئے جس طرح ہم زندگی میں مادی فوائد کے پیچھے بھاگتے ہیں وہی عمل ہمیں اگلے جہان میں بھی درکار ہے۔ من، دل اور روح کی دنیا سے ہمارا کم کم تعلق ہے اس لئے ان کے تقاضوں سے بھی بے خبر ہیں کیوں کہ آواز نہیں سنتے۔ تہہ خانے کا دروازہ کھولیں گے تو حقیقت کھلے گی۔

سوال یہ ہے کہ کب تک ہم علم کو نوکریوں کے حصول سے جدا کر کے باطنی روشنی اور آگہی کا وسیلہ کریں گے؟ کب تک ہم خود کو آئینے میں دیکھ کر شرمندہ ہوتے رہیں گے؟ روٹی کھل گئی تو اس پر ٹوٹ پڑے، جنت کا دروازہ کھل گیا تو اس پر ٹوٹ پڑے۔ جنت لوٹ کا مال نہیں ہے یہ ایک کیفیت ہے جو دل اور وجود کی کثافتوں کے ختم ہونے کے بعد محسوس ہوتی ہے۔ جب مٹی کے جسم کی اس طرح تطہیر ہو جاتی ہے کہ وہ بھی روح کا آئینہ بن جاتا ہے۔ مٹی محبت کی آگ میں پک کر لطیف شکل اختیار کر لیتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ اکثر مسلمانوں کا وطیرہ بن گیا ہے۔ جنت اور دوزخ کے جو نظریات انہوں نے اپنے ذہنوں میں پال رکھے ہیں ان کی وجہ سے ہماری زندگیاں عدم توازن اور مسائل کا شکار ہیں۔

اسی وجہ سے ہمارے صوفیوں نے ظاہر پرستوں پر بھرپور تنقید کی اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ خدا سے محبت کو نفع نقصان اور فائدے سے نہ جوڑا جائے۔ ہماری ذات جب تک اس کی ذات میں شامل ہو کر اپنا آپ مکمل نہیں کرتی ہم پر نہ کائنات کے راز کھلتے ہیں اور نہ ہم مکمل ہوتے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو علم کا دروازہ کہا گیا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم علم کا شہر ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگوں نے علم کے دروازے تک رسائی کی کوشش کی۔

بابا فریدؒ کے دربار پر جو دروازہ ہے وہ ایک علامت ہے۔ کوئی بھی صوفی اس طرح کی بات کبھی نہیں کر سکتا کہ وہ کسی ایک مقام کو جنت اور دوزخ کے حوالے سے ڈکلیئر کر دے۔ انہوں نے نیکی کے راستے پر چلنے کو جنت کی طرف کھلنے والے دروازے سے تشبیہ ضرور دی مگر ہم نے اس میں بھی اپنے مطلب کی چیزیں نکال لیں۔ بابا فریدؒ نے ربّ کی خوشنودی میں عمر گزاری، اس سے محبت کی، انسانیت سے محبت کی۔ اپنے آپ کو انسانوں کے قریب رکھا اور خدمتِ خلق کی تلقین ہی نہ کی بلکہ عمل کر کے دکھایا۔

ایک ایسا صوفی جس کا اک اک پل خدا کی رضا میں ڈھلا ہوا ہو اس کے رستے پر چل کر اس مقام تک رسائی ہو سکتی ہے لیکن کسی ماشی شہ کو جنت سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔ بابا فرید کا ہر لفظ دانش کی آماج گاہ ہے ان کے بیان تک پہنچنے کے لئے معانی کو سمجھنے اور دل مے ں اُتارنے کی ضرورت ہے۔ آئیے بابا فرید کے لفظوں کی روح کو سمجھنے کی سعی کریں ے ہ لفظ کنجی بنتے جائے ں گے اور ہر وہ دروازہ کھلے گا جس کی انسان کی روح کو تمنا ہے۔ بس اس کے لئے تھوڑی جدوجہد کرنی پڑے گی اور خالق کی مخلوق سے جڑنا ہو گاتب ہی کرم ہو گا۔

فریدا خالق خلق میں، خلق دِسّے رب مانہہ

مندا کس نوں آکھیئے، جاں تِس بن کوئی نانہہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).