عابد علی۔ ایک عہد تمام ہوا۔


پاکستان ٹیلی وژن نے ہر دور میں نہایت ہی باکمال اور عہد آفرین فنکار متعارف کروائے جنہوں نے اپنی اچھوتی اور حقیقت سے قریب تر اداکاری کی بدولت کروڑوں لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام پیدا کیا اور وطن عزیز کا نام سارے جہاں میں روشن کیا۔ ان فنکاروں میں طلعت حسین، قوی خان، راحت کاظمی، حسام قاضی، نجیب اللہ جان انجم، اورنگ زیب لغاری، ظل سبحان، سہیل احمد، سہیل اصغر، شفیع محمد، منصور بلوچ، فردوس جمال، نعمان اعجاز، عظمیٰ گیلانی، روحی بانو، فریال گوہر، شہناز شیخ اور ثانیہ سعید جیسے نامور اور محنتی ہستیاں شامل ہیں جن کی جاندار اداکاری اور فنکارانہ صلاحتیوں کو ہندوستان کے فلم انسٹی ٹیوٹ میں عرق ریزی سے پڑھایا جاتا رہا ہے۔

انہی عظیم فنکاروں کی کہکشاں میں اگر سب سے تاباں، چمکدار ستارے کی بات کی جائے تو بلاشبہ عابد علی جیسا ورسٹائل اور جہاندیدہ فنکار صف اول میں دکھائی دیتا ہے۔ اب سے قریب دو دہائیوں پہلے پاکستانی فنکاروں کی سرگرمیوں پر مشتمل ایک رسالہ ٹی وی ٹائمز کے عنوان سے شائع ہوا کرتا تھا جس میں عابد علی کو بہت ہی خوبصورت انداز میں خراج تحسین پیش کیا کہ اگر ہم پاکستان ٹیلی وژن کو ایک سولر سسٹم کی مانند سمجھیں تو بلاشبہ اس میں عابد علی اپنے فنکارانہ قد کاٹھ کی بدولت مشتری کی طرح نہایت وسیع و عریض اور چمکدار دکھائی دیتے ہیں۔

یہ بات ہر لحاظ سے درست ہے کیونکہ بطور اداکار عابد علی نے اپنے انمٹ نقوش تاریخ کے دھارے پر چھوڑے ہیں اور بطور ایکٹر ہمیں جتنی گہرائی اور انہماک ان کی کردار نگاری میں دکھائی دیا ایسا وزن کسی اور فنکار کے پلڑے میں ہرگز محسوس نہیں کیا جاسکتا۔ کوئٹہ کے مردم خیز علاقے سے ریڈیو میں بطور صداکار عابد علی نے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ اس کے بعد مزید بہتری کے راستوں کی تلاش ان کو ستر کی دہائی میں شہر لاہور کھینچ لائی جہاں ان کو یاور حیات، نصرت ٹھاکر اور جمیل ملک جیسے کہنہ مشق لوگوں کی رہنمائی کی بدولت کام بھی ملنے لگا اور ان استاد وں نے گویا عابد علی جیسے ہیرے کو تراش کر گوہر نایاب بنا کر پیش کردیا۔

اپنی بے مثال مردانہ وجاہت اور اثر دار آواز کی بدولت جلد ہی عابد علی ڈراموں میں ہر ڈاریکٹر کی اولین چوائس بن کر ابھرے۔ ان کو بڑا بریک تھرو ”جھوک سیال“ سیریل سے ملا جس میں پنجاب کی ثقافت کو خوبصورتی سے اجاگر کیا گیا اور اس ڈرامے کے ذریعے ان کی ملاقات حمیرا سے بھی ہوئی جو کہ مستقبل میں ان کی ہمسفر بھی بن گئیں۔ اس کے بعد تو جیسے عابد علی کے سامنے بہترین کرداروں کی جھڑی سی لگ گئی۔ سمندر، وقت، پیاس، سورج کے ساتھ ساتھ، خواہش، اڑان، بخت نامہ، نشیمن، آن، دوریاں، غلام گردش، دوسرا آسمان، ہزاروں راستے اور دشت جیسے ڈراموں میں جیسے گویا عابد علی کے لئے کردار تحریر کیے گئے ہوں اور جس دلکشی سے عابد علی ان کرداروں کی گہرائی میں اترے اس سے یہ ڈرامے امر ہوگئے۔

تاہم ان کو حقیقی شہرت اور فنی بلندی امجد اسلام امجد کے ”وارث“ ڈرامے سے ملی جس میں دلاور کے کردار نے ناظرین پر جیسے سحر طاری کردیا۔ اگرچہ یہ ڈرامہ محبوب عالم کے ”چوہدری حشمت“ کے کردار کی بدولت ناقابل فراموش ثابت ہوا مگر درحقیقت چوہدری حشمت کے مد مقابل دلاور کا کردار بھی کم داد کا مستحق ہرگز نہیں تھا۔ مجھے کہنے دیجئے کہ جس طرح ہندوستان میں فلم ”شعلے“ نے ہندوستانی سنیما کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا ایسا ہی کچھ ڈرامہ ”وارث“ نے بھی کردکھا یا جب اس کی ہر قسط شروع ہونے سے قبل ہی گلی کوچے، چوک اور چوراہے ویران ہوجایا کرتے تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ امجد صاحب کے ہی ڈرامے ”سمندر“ میں احمد کمال کے کردار میں بھی عابد علی نے ایسی ڈوب کر اداکاری کی کہ بھارت میں اس ڈرامے سے متاثر ہوکر فلم ”دنیا“ بنائی گئی جس میں عظیم دلیپ کمار نے سمندر کے احمد کمال سے متاثر ہوکر ویسا ہی کردار پردہ اسکرین پر ادا کیا۔ لیکن بقول عابد علی یہ میری زندگی کا سب سے بڑا لمحہ تھا جب بعد میں دلیپ کمار صاحب نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ فلم میں دنیا میں میری اداکاری اتنی متاثر کن نہیں رہی جتنا اچھی اداکاری سمندر ڈرامے میں اس پاکستانی فنکار عابد علی نے پیش کی۔

بلاشبہ دلیپ صاحب کا یہ اعتراف ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کی تعریف سن کر میں بے اختیار تشکر سے آبدیدہ ہوگیا۔ مستنصر حسین تارڑ صاحب برملہ کہتے ہیں کہ میرے ڈرامے ”ہزاروں راستے“ میں عابد علی نے ایک امیر وکبیر سیٹھ کا کردار ادا کیا اور ریکارڈنگ سے قبل ہی مجھ سے دریافت کرنے لگا کہ تارڑ صاحب آپ مجھ سے کس طرح کی پرفارمنس چاہتے ہیں مجھے بتائیں تاکہ میں اس کردار کی ضروریات سمجھتے ہوئے اسے کامیابی سے پرفارم کرسکوں؟

میں نے اسے بتایا کہ اس کردار میں تمھارا رول ایک لالچی اور کاروباری شخص کا ہوگا جس کا اصول ہوتا ہے کہ دولت کا کوئی پرچم نہیں ہوا کرتا اور پیسے کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ براہ مہربانی ایک تو تمھیں تھوڑا سا معزز گیٹ اپ کرنا پڑے گا اور دوسرا اپنی تھیٹریکل آواز کے زیروبم کو قابو میں لانا ہوگا۔ یقین مانئے کہ عابد علی کی ذاتی دلچسپی سے یہ کردار بھی یادگار بن کر ابھرا اور اسے بہترین اداکار کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

سچی بات تو یہ ہے کہ ایک سپر اسٹار ہونے کے باوجود اس شخص میں عاجزی، سیکھنے کی لگن ہر لمحہ جوان رہتی تھی اور خود پسندی تو جیسے چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔ اسی طرح وقت ڈرامے میں ریاض علی نامی قیدی کا رول ہو یا پیا س کے قدیر خان نامی کرخت جاگیردار کا کردار، خواہش کے اجڈ ٹرک ڈرائیور خوشی محمد کا کردار ہو یا دوسرا آسمان کے شاطر بزنس مین کا رول ہو، ہمیں ہمیشہ ہر جگہ عابد علی صاحب کی اداکاری کے نئے مظاہر ملتے ہیں۔

عابد علی نے بطور پرڈیوسر دوسرا آسمان، پنجرہ اور دشت جیسے ڈرامہ سیریلز بھی بنائے اور ان میں بھی شاندار اداکری کے جوہر دکھائے۔ بطور ڈاریکٹر انہوں نے ایک نیا ٹرینڈ متعارف کرایا کہ تمام ٹی وی سینٹرز سے فنکاروں کو اپنے سیریل میں یکجا کیا اور ان سے بہترین کام لیا۔ عابد علی نے دوسرے ساتھی فنکاروں کی مانند فلموں میں بھی اداکاری کی مگر اس میڈیم کی زبوں حالی کے باعث وہ کچھ خاص کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ البتہ ان کا اصل میدان ڈرامہ ہی رہا جہاں دور دور تک ان کا کوئی مدمقابل نہیں تھا۔

فن کی دنیا کا یہ عظیم اور درخشاں باب ستمبر 2019 میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہم سے دور ہوگیا مگر بطور ایک شاندار انسان اور ایک عہد ساز فنکار کے عابد علی صاحب کی یادیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی اور ٹی وی ٹائمز کا یہ تبصرہ ہمیشہ میرے کانوں میں گونجتا رہے گا کہ Abid Ali is truly the Jupitor of entire Ptv s solar system۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).