برادر، عید مبارک


یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں مسلمان طالبعلموں اور اساتذہ کی نمازوں کے لیے ایک کمرہ یونیورسٹی انتظامیہ نے دیا ہے۔ یہ کمرہ ماضی کے طالبعلموں کی لگاتار کوششوں کی وجہ سے ملا تھا۔ اسے مصلہ کے نام سے جانا جاتا ہے، جمعہ کی نماز یہاں نہیں ہوتی بلکہ یونیورسٹی کے جمنیزیم میں جمعہ کی نماز کے لیے جگہ کرائے پر لی جاتی ہے۔

جوتے اتار کرکمرے میں داخل ہوں تو دائیں جانب ایک دروازہ ہے جو ایک مختصر سے کچن میں کھلتا ہے۔ ایک واش بیسن اور اس سے متصل پتھر کی سل پر ایک مائکرو ویو اوون پڑا ہے جس کے ساتھ کچھ برتن پڑے نظر آتے ہیں۔ دیوار پر ایک نوٹس چسپاں ہے کہ برتن کھانے کے بعد دھو کر رکھیں۔ ایک کونے پر دو دروازوں کا سفید رنگ کا فریج کھڑا ہے۔ مائیکرو ویو میں کچھ کھانا گرم کریں تو خوشبو پورے کمرے میں پھیل جاتی ہے۔ اور اگر سجدہ گیر جذبے سے مانگے تو اُسے کھانے کو بھی مل جاتا ہے۔

کچن سے واپس نکلیں تو آپ مسجد کے کمرے میں ہیں، مگر یہ کمرہ مسجد کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ ایک کونے پر کسی طالبعلم کا پہیوں والا لکڑی کا سکیٹ بورڈ پڑا ہے۔ یونیورسٹی میں بہت سے طلبا آپ کو لکڑی کے سکیٹ بورڈز پر ایک پاوں سے بورڈ کو دھکیلتے اور پھر اس پر کھڑے ہو کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے نظر آتے ہیں۔ مسجد بھی تو ایک مقام سے دوسرے مقام پر لے جاتی ہے، ہمت کرنی پڑتی ہے، آنا پڑتا ہے، جھکنا پڑتا ہے۔ سکیٹ بورڈ کے ساتھ ہی سائیکل میں ہوا بھرنے کا پمپ دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا ہے۔ کئی مسلم طالبعلموں کے شعبہ جات دور ہیں۔ وہ مصلے تک سائیکل پر آتے ہیں، ٹائر میں ہوا ٹھیک ہو تو پرانی سائیکل بھی بڑا دوڑتی ہے، بس جھکنا پڑتا ہے، ہوا بھرنے کا زور لگانا پڑتا ہے۔ پھر سائیکل آپ کو اٹھائے پھرتی ہے۔ ٹھنڈی ہوا، خوشی اور ٹھنڈک ساتھ ہے، ورزش اور صحت جھونگے میں۔

کچن سے آگے قالین بچھا کمرہ ہے، نہ زیادہ بڑا نہ بالکل مختصر۔ کونے پر الماریاں ہیں جن میں قرآن اور مختلف زبانوں میں لکھی اسلامی کتابیں رکھی ہیں۔ انڈونیشین، عربی، اردو، بنگالی میں لکھی کتابیں ایک دوسرے سے متصل جڑی ہیں جیسے دن میں پانچ وقت مختلف شباہتوں اور زبانیں بولتے نمازی ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک الماری میں مختلف خانہ دار چادریں ہینگروں پر تہہ شدہ لٹکی ہیں۔ یہ انڈونیشن پہناوے کی آگے سے سلی چادریں ہیں، مختلف رنگوں کی خانے دارسوتی دھوتیاں۔ اگر آپ فٹ بال کھیل کر نیکر میں بھی مصلے میں آ جائیں تو کوئی آپ پر غضبناک نگاہ نہیں ڈالتا۔ الماری میں لٹکی یہ رنگا رنگ چادریں آپ کا ستر ہیں۔

ایک طرف دیوار پر کپڑا لگا بورڈ ہے جب کہ دوسری جانب سفید گتے کا بورڈ ہے جس پر نماز کے اوقات کے علاوہ دوسرے اعلانات لکھے جاتے ہیں اور مٹ جاتے ہیں۔ مٹ جاتے ہیں مگر نادیدہ سے نشان باقی رہتے ہیں، ایسے ہی جیسے مختلف ممالک سے آئے ہوئے مسلم طالبعلم ایک وقت کے بعد اپنے وطنوں کو لوٹ جاتے ہیں مگر ان کی خوشبو کہیں اس کمرے میں موجود رہتی ہے۔ گہرا سانس بھریں توایک عجب سا احساس زندہ ہوتا ہے۔

کمرے میں قالین بچھا ہے۔ بعض اوقات صفیں بھی ان قالینوں پر بچھی ہوتی ہیں۔ یہیں میں نے زندگی کا ایک خوبصورت منظر دیکھا تھا۔ آگے باجماعت نماز ہو رہی تھی اور پیچھے دو چھوٹے چھوٹے بہن بھائی صفوں کو اپنے اوپر اوڑھے چھپن چھپائی کھیل رہے تھے۔ امام کی آواز کے ساتھ ساتھ ہنسی کی کلکاریاں بھی فضا میں گونج رہی تھیں۔ میں جو نماز کے لیے دیر سے پہنچا تھا، کچھ دیر پیچھے کھڑے ہوکر یہ عجب منظر دیکھتا رہا کہ اس منظر کی قضا نہ تھی۔ اپنا خالص حسن لیے تعلق پورے کمرے میں بکھرا پڑا تھا۔ سلام پھیرنے کے بعد نمازیوں کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ تھی، خشمگیں نگاہیں کہیں نہ تھیں۔

بقر عید سے اگلا دن تھا اور میں عصر کی نماز کے لیے کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ دروازے پر ہی ایک سات آٹھ سال کا معصوم صورت لڑکا میرے طرف بڑھا۔ انگریزی میں مجھے کہنے لگا، ”برادر، کیا آپ مجھے فریج کے ہجے بتا دیں گے“۔ اس کی انگریزی بھی اُس کی مانند معصوم تھی۔ میں مسکرا دیا، نماز پڑھنے سے پہلے ہی ایک ٹھنڈک چہارسو پھیل گئی تھی۔

میں نے نماز کو موخر کیا اور اس بچے کے ساتھ کمرے کے آخر میں چلا گیا، جہاں اس نے ایک سفید کاغذ کا پوسٹر زمین پر لٹا رکھا تھا۔ نیلے مارکر نے اس کے ننھے ہاتھوں پر اپنا رنگ چھوڑ دیا تھا۔ میں خوش تھا، مسجد میں پوچھے جانے والے مشکل سوالات کے برعکس یہ ایک آسان سوال تھا، فریج کے انگریزی میں ہجے۔ اُس کمسن نے کاغذ پر تین لفظ لکھ رکھے تھے۔ اس کو برادر کے انگریزی میں ہجے آتے تھے۔ طفل کو برادر کے ہجے ہی نہیں، رشتے کا بھی پتہ تھا۔

فریج کے ہجے بتانے کے لیے ایک پاکستانی برادراس کے ساتھ کھڑا تھا۔ میں ایک ایک حرف بتاتا رہا اور اس نے فریج کو کاغذ پر لکھ دیا۔ اس کا باپ ساتھ بیٹھا تھا، جسے انگریزی نہیں آتی تھی۔ وہ شام سے آیا ایک پناہ گزین تھا، جلتے، سسکتے، تباہ ہوتے شام سے۔ بچے نے سفید کاغذ پر پیغام مکمل کردیا، بھائیو، فریج میں گوشت پڑا ہے، مہربانی کرکے اسے لے لیں، عید مبارک۔

وہ کاغذ اُس بچے نے بورڈ پر لگادیا۔

ملک شام ؛ تہذیب، ثقافت، تمدن کے گڑھ کے اجڑے باسیوں کی طرف سے دیارِ غیر میں عید مبارک۔

عجب ملے جلے تاثرات تھے، جن میں میں نے نماز کے لیے ہاتھ کھڑے کیے۔ نماز پڑھ کر فارغ ہوا تھا کہ وہ بچہ پھر پاس کھڑا تھا، مگر اب اس کے نیلے مارکرزدہ ہاتھوں میں ایک گوشت کی تھیلی تھی، ”برادر، یہ آپ کے لیے ہے“۔

میں مسکرادیا، میں نے وہ تھیلی اُس سے لے لی۔ مجھے مان لینے دیجیے کہ وہ تھیلی میں نے بعد میں آنکھ بچا کر فریج میں رکھ دی تھی کہ گھر میں قربانی کے جانور کا گوشت پڑا تھا، اور ویسے بھی طالبعلموں کا اس گوشت پر حق فائق تھا۔ مگر میں اس معصوم بچے کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ وہ پہلے ہی ایک کرب سے گزر کر یہاں پہنچا تھا اور فریج کے ہجے بتانے والے برادر پر اسے ایک مان سا ہوگیا تھا۔

مصلے کے کمرے میں گہرا سانس بھریے، بہت سے مان آپ کو تقویت دیں گے۔

اگلے دن نماز کے لیے مصلے میں آیا تو کسی نے فریج کو کاٹ کر فریزر لکھ دیا تھا، مگر صحیح غلط کی تعریف سے الگ مجھے تو فریج کا لفظ مسکراتا نظر آرہا تھا، اور اُس بچے کا مسکراتا چہرہ بھی ساتھ کھڑا تھا۔ اور ان دونوں کے ساتھ ایک پاکستانی برادر کی دعا بھی اس بچے کے لیے ساتھ کھڑی تھی، مسکراتی مگر کچھ نم زدہ بھی۔

مصلے کے کمرے میں گہرا سانس بھریے، بہت کچھ روح میں اتر آتا ہے۔

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor