جامعہ (پنجاب یونیورسٹی) کے امن فروش


آج شیخ زید ہسپتال سے نکلتے ہوئے سماء نیوز کی ڈی ایس این جی وین اور پنجاب پولیس کی گاڑیوں کو پنجاب یونیورسٹی کے گیٹ پر دیکھا تو از راہ تجسس میں نے بھی ادھر کا رخ کیا۔ فیصل آڈیٹوریم کے سامنے بلوچ اور پشتون طلبہ کا جمِ غفیر تھا۔ نیوز چینلز کی گاڑیاں اور پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔ ایک طرف کچھ طلباء بلوچی ملبوسات زیب تن کیے ایک دائرے کی صورت روایتی انداز میں رقصاں تھے تو دوسری طرف اسٹالز پر ایک بڑی تعداد خرید و فروخت میں مشغول تھی۔

مجھے ان پر رشک آ رہا تھا کیونکہ ہمارے دور میں تو سالانہ کھیلوں میں با آواز بلند نعرے سے بھی جماعت اسلامی کے خدائی فوجداروں کا اسلام خطرے میں پڑ جاتا تھا۔ ایک خوشی بھی تھی کیونکہ جامعہ کو پرامن، جمعیت کی بے جا مداخلت سے پاک اور ایسے ہی آباد دیکھنا ہمارا بھی خواب تھا۔ خود نہ سہی بعد میں آنے والے آپ کے اپنے ہی اگر آپ کا خواب جی لیں تو یہی اس کی معراج ہے۔

خیر میں شعبہ فلسفہ کی طرف بڑھا تو فلاسفی لان سے جو آج کل شعبہ آثارِ قدیمہ کے ساتھ ملحقہ ہے، جمعیت کی دنڈا بردار سپاہ ”شہادت شہادت اور زندہ ہے جمعیت زندہ ہے“ کے نعرے لگاتی نمودار ہوئی۔ یونیورسٹی میں اپنی ہی لگائی آگ میں جلس کر مر جانے والے جمعیت کے سیاسی شہید، ان کی بقا کی جنگ اور نعروں میں زندہ ہو جاتے ہیں۔

ایسی ہی ایک شہادت کا واقعہ تو ہمارا آنکھوں دیکھا ہے کیونکہ ہمارے دوست اسد فاطمی کے بقول ہم بھی ا ن دنوں ”کرانتی کرانتی“ کھیلا کرتے تھے۔ واقعہ یوں ہے کہ ذاتی چپقلش کی بنا پر جو کہ کمرہ کی الاٹمنٹ سے شروع ہوئی جماعت اسلامی کی ہی ایک ذیلی تنظیم شباب ملی کے جامعہ انچارج ابرار وٹو نے اس وقت کے سرگرم رکن اور ناظم جمعیت لاء کالج اویس عقیل کو قتل کر دیا۔ اور اگلے دن جمعیت نے ایک ریلی نکالی، نعرے ملاحظہ فرمائیں ”قاتل وی سی قاتل، ظالموں جواب دو ظلم کا حساب دو، زندہ ہے جمعیت زندہ ہے، ہمارا خواب شہادت شہادت اور

اویس تیرے خون سے انقلاب آئے گا ”

ابرار وٹو جامعہ میں غنڈہ گردی کی وجہ سے جمعیت کی طاقت مانا جاتا تھا۔ مجھے آج بھی وہ رات یاد ہے جب جمعیت کے مسلح کارکنوں نے باوضو ہو کر ہوسٹل نمبر سات میں شعبہ فلسفہ کے طالب علموں پر دھاوا بولا تو اویس عقیل حملہ آور گروہ کا انچارج تھا۔ مزاحمت کی صورت میں جماعتی بھاگ نکلے، کچھ گیٹ پر قابو آگیے۔ مجھے آج بھی وہ الفاظ یاد ہیں ”ابرار بھائی مر جائیں گے تو آو گے“ وہ ابرار ہی تھا جو باہر سے اس گروہ کو بیک کر رہا تھا۔

خیر شاہد کلی کی کال آگئی کہ میڈم فرزین کے دفتر پہنچو جہاں ہمیں میرا ایم فل کا مقالہ ڈسکس کرنا تھا، کلی میرا ہنگاموں کے دور کا ساتھی ہے۔ ہم نے جمعیت کی فسطائیت کے خلاف مل کر لڑا ہے۔ میڈم کا دفتر ہمیشہ کی طرح مچھلی منڈی بنا ہوا تھا۔ دفتر کے باہر بھی طالبات فرش پر ہی ڈیرہ جماے ہوئے تھیں۔ وہیں کلاس پڑھانے کی ایک نا کام کوشش کے بعد میڈم اپنے لاولشکر سمیت کلاس میں چلی گئیں۔ تھوڑی دیر بعد کلی اور لالہ بکر آگیے۔

پھر استاد ذی وقار ڈاکٹر ساجد علی بھی اتفاقاً تشریف لے آئے۔ وہاں بھی جامعہ میں جمعیت اور جماعت اسلامی کا کردار زیر بحث رہا۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد میڈم نے آ کر بتایا کہ جمعیت نے بلوچ اور پشتون طلبہ پر مودودی اسلام نافذ کرنے کی کوشش کی۔ پنجاب پولیس نے ردلفساد شروع کیا تو خدائی فوجداروں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔ باہر نکلا تو آنسو گیس کی چبھن محسوس ہوئی مگر یہ چبھن ہیچ ہے اس کے سامنے جو خواب کے ٹوٹنے پر دل میں محسوس ہوتی ہے

کیا غضب ہے کہ تعفّن میں ہمیں کِھلنا پڑا
اب تو مُرجھائے بنا دشت میں چارا ہی نہیں

(نوٹ : یہ تحریر 21 مارچ 2017 کو لکھی گئی ہے جو آج بھی گزشتہ روز اسلامی جمعیت طلبہ اور پشتون طلبہ کے مابین ہونے والی ہنگامہ آرائی پر صادق آتی ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).