سی پیک، چند سوالات اور گزارشات


\"rafiullah-kakar\"

سی پیک کے تنازع نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے۔ اس حوالے سے تازہ ترین خبر چین کے سفارتکار کی ٹویٹس ہیں، جن میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو کم حصہ ملنے کے تاثر کو ذائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان میں چینی سفارت خانے کے ڈپٹی چیف آف مشن محمد ژا لی جیان(Muhammad Zhao Lijian) نے اپنے ٹویٹس میں مغربی روٹ کے حوالے سے تنقید اور بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو کم حصہ ملنے کا تاثر مسترد کر دیا۔ منصوبوں کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں 16 ، سندھ میں 13، پنجاب میں 12 اور پختونخوا میں 8 منصوبوں پر کام جاری ہے۔ ان ٹویٹس کے جاری ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک کہرام مچ گیا۔ احسن اقبال صاحب اور ان کے خوشہ چینوں نے ان ٹویٹس کی بنیاد پر سی پیک پر سولات اٹھانے والوں کو نشانہ بنایا اور ان کوخاموش کرنے کی کوشش کی۔

حقیقت حال یہ ہے کہ چین کے سفارت کار کے ان ٹویٹس میں کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں ہے جس سے سی پیک پر اٹھائے گئے سوالات کو بے جا ثابت کیا جائے۔ دقت نظر سے اگر دیکھا جائے تو یہ ٹویٹس سی پیک پر کئے جانے والے بہت سے تحفظات کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے اٹھنے والے سوالات اور تحفظات کو سمجھا جائے، پھر یہ دیکھا جائے کہ چینی سفارتکار کے انکشافات ان تحفظات کو مخاطب کر رہے بھی رہے ہیں یا نہیں۔ سی پیک ایک پیچیدہ منصوبہ ہے اور اس کے کئی پہلو ہیں۔ تاہم اس حوالے سے بلوچستان، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے تحفظات کا خلاصہ یوں ہے۔

1) سی پیک کے تین راستوں کا آئیڈیا ایک سیاسی فریب ہے۔ عملاً مشرقی راستہ( جو پنجاب اور سندھ سے گزرتا ہے) ہی سی پیک کا بنیادی اور اہم راستہ ہے۔ مغربی راستے کا مشرقی راستے سے کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً، مشرقی راستہ ایک جدید 8 لین موٹروے پر مشتمل ہے جبکہ مغربی راستہ ایک سنگل لین سڑک ہے۔ دونوں سڑکوں کے معیار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس کاریڈور کے دیگر اجزاء جن میں ریلوے لائن، توانائی کے منصوبے، صنعتی زون اور ایل این جی شامل ہیں، ان کی اکثریت مشرقی راستے سے آتے ہیں یا سے کے متوازی چلے جا رہے ہیں۔ حکومت کا یہ دعویٰ کہ مغربی روٹ کو اپ گریڈ کر کے آئندہ پندرہ سالوں میں موٹروے بنایا جائے گا، میں وزن نظر نہیں آتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک مرتبہ کاریڈور فنکشنل ہو جائے تو پھر اس کی کوئی گارنٹی نہیں کہ مغربی روٹ کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ بلکہ ڈر یہ ہے کہ ماضی کے بیشتر منصوبوں کی طرح حکومت کبھی سیاسی بحران تو کبھی معاشی تنگ دستی کو بہانہ بنا کر اس کو ٹالتی رہے گی۔ حکومت فی الحال یہ دعویٰ کر تو رہی ہے مگر یہ بتا نہیں پا رہی کہ پندرہ سال بعد اس منصوبے کو فنانس کون کرے گا؟ کیا موجودہ سی پیک میں چین کے ساتھ معاہدے میں ایسی کوئی شق موجود ہے ؟ فرض کیجیے کہ حکومت اپنا وعدہ پورا کر بھی لیتی ہے اور پندرہ سال بعد اس کو اپ گریڈ کرتی ہے، تب تک مشرقی روٹ سی پیک کا بنیادی روٹ بن چکا ہو گا۔ نجی سرمایہ کاری ساری اسی راستے کے آس پاس ہو چکی ہو گی۔ اس وقت مغربی روٹ کو مشرقی روٹ کے برابر لانا ممکن نہ ہو گا۔ مشرقی راستے کو تب (reverse) کرنا ممکن نہ ہو گا۔ معاشیات کی زبان میں اس کو(Path Dependency) کہتے ہیں۔

2) کچھ حکومتی حلقوں کا یہ دعوی ٰ ہے کہ مشرقی راستہ چین کی ترجیح ہے۔ مزید یہ کہ سی پیک کے منصوبہ جات کی جگہ(Location) سرمایہ کار کی ترجیحات کے مطابق ہو گی۔ سرمایہ کار کے ترجیحات کی بات 35 بلین ڈالر کے توانائی منصوبوں پر لاگو ہوتی ہے جو کہ Foreign Direct Investment) ) ہے لیکن یہ بات 20 بلین ڈالر کے قرضوں پر لاگو نہیں ہوتی جو انفراسٹرکچر کے لئے لیے گئے ہیں۔ یہ لگ بھگ 20 بلین ڈالر کا Soft اورConcessionary قرضہ حکومت پاکستان کی مرضی سے خرچ ہو گا۔ لہذا اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومت ان پیسوں کو اپنی مرضی سے مشرقی راستے پر موٹروے بنانے کے لئے لگائے گی۔ یہ حکومت پاکستان کا فیصلہ ہے اور اس میں چینی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

3) سی پیک کے حوالے سے حکومت اور اس کے ہمنواؤں کا سب بڑا دعویٰ یہ ہے کہ مغربی راستے پر سیکیورٹی خدشات ہیں لہذا حکومت پاکستان اور چین نے مشرقی راستے کو ترجیح دی ہے جو زیادہ پرامن اور محفوظ راستہ ہے۔ اس حکومتی دعوے سے اکثر لوگ اتفاق کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص بلوچستان کے جغرافیہ اور سی پیک کے نقشوں سے واقف ہو تو اس کے لئے حکومت کا یہ دعویٰ رد کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہو گا۔ بلوچستان کے جن شہروں میں علیحدگی پسندوں کی بغاوت زوروں پر ہے وہ علاقے بلوچستان کے جنوب میں واقع ہیں۔ سی پیک کے اعتبار سے یہ علاقے( جن میں آواران، تربت، پنجگور اورخضدار شامل ہیں)سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں شمالی بلوچستان اس سے کئی گنا زیادہ پرامن اور محفوظ ہے۔ سی پیک گوادر سے شروع ہو کرخضدار کے قریب بسیمہ کے پاس مشرقی اور مغربی راستوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں گوادر سے بسیمہ تک کا راستہ مشترکہ راستہ(Common Alignment ) ہے جو ہر صورت میں بننا ہے۔ جن علاقوں سے مغربی راستہ گزرتا ہے(بسیمہ، قلات، کوئٹہ، ژوب، ڈی آئی خان) وہ بلوچستان کے سب سے پرامن اورمحفوظ علاقے سمجھے جاتے ہیں۔ اس راستے پر مستونگ واحد شہر ہے جو قدرے غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے لیکن مستونگ کے غیر محفوظ ہونے کی نوعیت بھی کچھ ایسی ہے کہ بقول بلوچستان کے لوگوں کے اس سے سی پیک کو کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ مستونگ کے پرتشدد واقعات کی نوعیت اکثر فرقہ وارانہ ہوتی ہے جن میں ریاستی اداروں اور (Installations) کو بہت کم نشانہ بنایا گیا ہے۔ مقامی لوگ سمجھتے ہیں کہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کو کنٹرول کرنا ریاست کے لئے کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ لہذا مغربی روٹ کے غیر محفوظ ہونے کے حکومتی دعوے میں وزن نہیں ہے۔ جو علاقے اصلاً غیر محفوظ ہیں وہاں سے تو سی پیک کا مشترکہ ہر صورت گزر رہا ہے۔

4) توانائی کے منصوبوں کے مقامات (Locations) پر اٹھنے والے سوالات کے جوابات میں حکومت کا موقف ہے کہ ان منصوبوں کے مقامات پر بحث بے معنی ہے کیونکہ یہ منصوبے جس صوبے میں بھی ہوں ان سے پیدا ہونے والی توانائی قومی گرڈ (National Grid) میں جائے گی جہاں سے وہ صوبوں میں تقسیم ہو گی۔ حکومت کی یہ بات بجا ہے مگر اس میں ایک loop hole ہے اور وہ یہ کہ بلوچستان، فاٹا، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے بہت سے علاقوں میں ابھی بجلی نہیں پہنچی۔ یہ علاقے قومی گرڈ سے ابھی تک جڑے ہی نہیں لہذا اگر پاکستان کے پاس بجلی فاضل مقدار میں بھی ہو تو یہ بلوچستان اور فاٹا کے بہت سے علاقوں تک نہیں پہنچ سکتی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ حکومت، بلوچستان،فاٹا اور گلگت بلتستان میں ٹرانسمیشن لائینیں بچھاتی تاکہ یہ نیشنل گرڈ سے جڑ سکیں۔ افسوس کی بات ہے کہ حکومت نے پنجاب کے لئے دو ٹرانسمیشن لائن سی پیک کاحصہ بنائے ہیں لیکن ان پسماندہ علاقوں کے لئے ایک لائن بھی اس میں نہیں ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ بلوچستان کی موجودہ ٹرانسمیشن لائنوں میں اتنی استعداد نہیں ہے کہ وہ اضافی بجلی کا بوجھ اٹھا سکیں۔

چین کے سفارتکار کی ٹویٹس سے مندرجہ بالا کسی تنقید کی نفی ہوتی ہے اور نہ ہی کسی سوال کا جواب ملتا ہے۔ چین کے سفیر نے بلوچستان میں جو16 پراجیکٹس گنوائے ہیں ان میں 13 گوادر کے پراجیکٹس ہیں جبکہ صرف تین باقی ماندہ بلوچستان میں ہیں۔ گوادر کے اکثر پراجیکٹس اسلام آباد اور بیجنگ کی نوکر شاہی کے منظور نظر اور انہی کے مفادات کی ضامن ہیں۔ ان کو بلوچستان کے کھاتے میں ڈالنا خود پسندانہ بے اعتنائی کے سوا کچھ اور نہیں۔ بر بنائے بحث اگر ہم گوادر کے پراجیکٹس کو بلوچستان کے پراجیکٹس سمجھ کر قبول کر بھی لیں تب بھی اس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ چینی سفارتکار نے پراجیکٹس کی تعداد کو بنیاد بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سی پیک میں ہر صوبے کا جائز حصہ ہے۔ درآں حالیکہ کہ صوبوں کے جائز حصہ کا جھگڑا اور سوالات و تنقیدات کے مخاطبین چین نہیں پاکستان کے برسراقتدار طبقات ہیں۔ تعداد کی بنیاد پر سی پیک کی جامعیت(Inclusiveness) کو جج کرنا درست نہیں۔ درست معیار پراجیکٹس کی مقدار کے ساتھ ان کی قسم، نوعیت اور قیمت کو ایک ساتھ ملا کر دیکھنا ہے۔ مثلاً چین کے سفارتکار نے بلوچستان کے جو 16 پراجیکٹس گنوائے ہیں ان کی کل مالیت لگ بھگ 2 بلین ڈالر ہے۔ اس کے برعکس پنجاب کے 12پراجیکٹس کی لاگت تقریباً 20 بلین ڈالر ہے۔ لہذا چینی سفارتکار کے ٹویٹس کی بنیاد پر کوئی بڑا نتیجہ اخذ کرنے سے گریز کرنا چاہیے ورنہ آپ گوادر میں ایک پرائمری سکول کی تعمیر کو لاہور میں اورنج لائن ٹرین کے برابر کا درجہ دے بیٹھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments