لبنیٰ کی آنکھیں زندہ ہیں


ہر طرف دکھ پریشانی اور مایوسیوں کے سائے تھے۔ رات کی تاریکی میں گاؤں کی گلیوں میں اچانک شیطانی طاقتوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ بے شک اس فرعونیت اور کفر کے حملے کی سرپنچ کو کچھ کچھ خبر تھی مگر اکیلا گاؤں کا سرپنچ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کر پایا تھا اور ایک دن روئے زمین پر مالک دوجہان کی طرف سے بنائی گئے جنت جیسے گاؤں پر شیطانی قوتوں نے خود کو زمینی خدا سمجھنے والوں کی آشیرباد سے دھاوا بول دیا۔ اس شیطانی فوج میں کچھ بھیڑیے سور اور لگڑ بگڑ بھی شامل تھے جو رات کی تاریکی میں گاؤں کے گھروں میں گھس کر کہنہ بوسیدہ لکڑی کے تختوں کی اوٹ میں حجاب اور برقعے لپیٹے اپنی عصمت لتٹ جانے کے ڈر سے چھپی فاختاؤں جیسی نوعمر دوشیزاؤں کو نوچ ڈالتے۔

گاؤں کی پاکیزہ روحیں متبرک صافوں سے اپنے سرڈھانپے، سبز پیلیے چولے پہنے سہم کر فانی اجسام کے تہہ خانوں میں سر چھپائے مصلوں پر بیٹھ کر اللہ کو صدائیں دے رہی تھیں۔ رات کا گہرا اندھیرا اور آسمان میں ٹھاٹھیں مارتا کسی ساحرہ کے طلسم جیسا جادوئی سٹاٹا پورے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا۔ ہر طرف گہرے سبز پیڑوں اور درختوں کی شاخیں تیز ہواؤں سے خاموشی کا سینہ چیر کر کسی مسیحاء کو آوازیں دے رہی تھیں۔

ایسا محسوس ہوتا تھا یہ تیز ہوائیں درختوں کی ٹہنیوں کو کھینچ کھینچ کر زمین پر لٹادینے کی کوشش میں ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ ٹھنڈی سرد ہوائیں سینہ تان کر کھڑے درختوں سے کہہ رہی ہوں بستی کے مردوں کی طرح تمھیں بھی شیطانی قوتوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے چاہیئیں۔ پہاڑوں پر اگے چھوٹے چھوٹے معصوم پھول، پودے رنگ برنگی بیلیں اور کچنار کی کچی کلیاں مرجھا کر گاؤں کے قبرستان میں بکھرے خزاں آلود پتوں کے ساتھ زندگی کی آخری ہچکیاں بھر رہی تھیں۔

شیرخوار اپنی ماؤں کے بنجر کلیجوں سے لپٹ کر دور افق پر ڈھلتے شام کے سورج کے زرد رنگوں کی طرح انجان سے اندھیرں کی نذر ہو چلے تھے۔ گاؤں کا سرپنچ اپنی کچی کٹیا کی چھت پر کھڑا شہر کی طرف رخ کرکے چیخ چیخ کرشہر کی رنگین روشنیوں میں محو لطف و سرور ومستی کچھ لونڈوں کو مدد کے لیے پکار کر گاؤں میں ہونے والے بھیڑیوں کے حملے سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہا۔ دیے کی مدھم روشنی میں بند دروازے پہ نظریں جمائے لبنیٰ اپنے گیارہ ماہ کے اکلوتے بچے کو بھوک پیاس افسردگی اور انجانے ڈر سے سکڑتی خشک چھاتی سے دودھ کی کچھ بوندیں نچوڑ کر پلانے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔

تین دن پہلے جمیل اپنی بیوی کی پیشانی پہ آخری بوسہ دے کر لٹھ پکڑے گلی میں دندنانے بھیڑیوں اور شیطانوں کو اپنے گاؤں سے نکالنے گیا تھا اور لوٹ کر نہ آیا۔ ذرا سی ہوا دروانے کے کواڑ ہلاتی تو لبنیٰ جمیل کے لوٹ آنے کی امید لیے دروازے کو تکنے لگتی۔ آخر کار لبنیٰ کی آنکھوں سے امید کے بادل ہٹنا شروع ہوگئے۔ اب لبنیٰ صرف اپنے شوہر کی لاش پر ماتم کرنا چاہتی تھی وہ جمیل کو اپنی آنکھوں کے سامنے کفن دے کر قبر کا پیٹ بھرنا چاہتی تھی۔

لبنیٰ جمیل کا آخری دیدار کرنا چاہتی۔ اس گھبراہٹ اور گھٹن کے ماحول میں جب لبنیٰ نے دیکھا کہ اس کی گود میں لیٹے معصوم کے رونے اور ہچکیوں کی آواز آنا بند ہوگئی ہے تو وہ اور ڈر گئی اس نے اپنے بچے کے گال تھپتھپائے بخار کمزوری اور نقاہت سے بلبلاتے بچے کی آنکھوں کی پتلیاں بھی سفید ہونے لگیں۔ تھرما میٹر میں اترتے پارے کی طرح بچے کا رنگ سرخ سے زردی مائل ہونے لگا۔ رات کے اس پہر اکیلی لبنیٰ کبھی آسمان کی طرف دیکھتی اور کبھی دروازے کی طرف جمیل کے چلے جانے کے بعد لبنیٰ نے تین دن بنا کچھ کھائے پیے اسی ایک جگہ بیٹھ کر گزار دیے تھے۔

آخر کار لبنیٰ نے گھر سے باہر نکلنے کا فیصلہ۔ وہ اپنی گود میں دم توڑتے اپنے اکلوتے بچے کو لے کر دروازے کی طرف بڑھی جیسے ہی اس نے گھر کے باہر قدم رکھا تو گلی کے مکانوں کی چھتوں پر لشکر کفر کے گدھ پر پھیلائے انسانی گھروں کے مقفل دروازوں پہ تاک لگائے بیٹھے تھے۔ ہر گھر کے بند دروازے پر فرعونی بھیڑیے سور اور لگڑ بگڑ ہاتھوں میں ترشول، تیر، بھالے اور نیزے پکڑے بدبودار لباس میں کھڑے منہ سے آگ کے گولے نکال رہے تھے۔

لبنیٰ کی سہیلی نسرین کے گھر کو لگائی گئی آگ سے آسمانوں کی طرف اٹھنے والے دھویں کے سیاہ بادل آسمانوں میں بیٹھے سب کے پروردگار سے شکایت کرنے میں مصروف تھے۔ گلی میں ہو کا عالم تھا۔ پتہ نہیں کس گھر میں کون زندہ تھا کرفیو لگے کو آج پچاس دن ہو چلے تھے۔ کسی کے زندہ بچ رہنے کا خیال بھی دیوانے کے خواب جیسا تھا۔ لبنیٰ رونا چاہتی تھی مگر درد پریشانی اور محرومی نے صبر کی شکل کی اختیار کر لی تھی۔ لبنیٰ کو بس اپنے شیر خوار بچے کی فکر لاحق تھی۔

وہ ہر قیمت پر اپنے بچے کے لیے دودھ کا انتظام کرنا چاہتی تھی۔ مگر گاؤں کے سبھی دروازے بند تھے۔ سرپنچ کے گھر کی طرف چند قدم چلنے کے بعد لبنیٰ سہم گئی جب ایک بھیڑیے نے پیچھے سے لبنیٰ کا دوپٹہ پکڑ کر کھینچا۔ خونخوار بھیڑیے کے نتھنوں سے نکلتی گرم ہوا لبنیٰ کی پیشانی پہ منڈلاتے ننگے بالوں کو چھیڑا۔ لبنیٰ ڈری نہیں بلکہ اس نے اس وحشی کے منہ پر تھوک دیا۔ غصے سے بھیڑیے کے منہ سے لعاب بہنے لگا اس کی آنکھیں دوزخ کی حامیہ آگ کی طرح انگارے برسانے لگیں۔

شیطانی لشکر کا بھیڑیا لبنیٰ کو بالوں سے پکڑ کر گاؤں کی پتھریلی زمین پہ گھسیٹنے لگا لبنیٰ کے بدن سے رسنے والا لہو چھوٹے چھوٹے پتھروں پہ ملمع کاری کرتے ہوئے ڈھلوان کی طرف بہنے لگا گویا قربانی پہ کسی انجان قصاب نے بڑا جانور زبح کردیا ہو۔ یا کسی جزیرے میں دریا کنارے پیاس بجھانے آئی ہرن مگر مچھ کی شکنجے میں جا پھنسی ہو۔ شکار کو دیکھ کر دو لگڑ بگڑ اور سور بھی اس طرف آنکلے۔ لبنیٰ کا شیرخوار کنکروں پہ ایڑھیاں رگڑ رہا تھا۔

لبنی تکلیف سے بے نیاز اپنے بچے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ لنبی کی چھاتی سے دودھ کی جگہ خون بہنے لگا لبنی کے جسم کے کس حصے کو کس جانور نے نوچ کر بھوک مٹائی لبنی کو کچھ پتہ نہ تھا۔ کوئی لبنیٰ کا منہ نوچ کر لے گیا، کوئی ٹانگ، کسی نے گردن میں دانت گاڑھ دیے کسی نے کولہے اور خون آلود چھاتی پر اپنے ناخن پیوست کردیے لبنیٰ کی کی کھلی آنکھوں کے علاوہ تمام جسم بے جان تھا وہ مر چکی تھی مگر اس کی آنکھیں اپنے بچے کو دیکھ رہی تھیں۔

ادھر انسانی دنیا کی سب سے مہذب سمجھی جانے والی بیٹھک جاری تھی۔ لبنیٰ کے خاندان کی دوسری بستیوں میں شیطان کو بہترین حاکم تسلیم کرنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ لبنی کے تین بھائیوں کے علاوہ باقی بستیوں نے شیطان کے شہر کو دنیا کی سب سے بڑی کاروباری منڈی کہہ کر اپنی اپنی مجبوریاں بیان کر دیں تھیں۔ لبنیٰ کا ایک بھائی چیخ چیخ کر پوری دنیا کو بتا رہا تھا یہ شیطان ہے یہ صرف ایک گاؤں کو نہیں پوری دنیا کو جہنم بنا دینا چاہتا ہے۔

وہ تنہا لبنیٰ کے باقی خاندان، ہمسائیوں اور سپر پاورز کو پکار پکار کر کہہ رہا تھا ہمارے گاؤں سے شیطانی افواج کو نکالو۔ میرے گاؤں میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔ عورتوں کی عصمت لٹ رہی ہے۔ میرے گاؤں میں کھانا نہیں ادویات نہیں۔ پچاس دن سے زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ رابطے کا کوئی نظام باقی نہیں رہا ڈاک خانے جلا دیے گئے انٹرنیٹ اور باقی مواصلاتی نظام درہم برہم کردیا گیا۔ اگر لڑائی ہوئی تو یہ دنیا کی بھیانک ترین لڑائی ہوگی۔

صرف میرے گاؤں کو ہی نہیں پوری دنیا کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ میں اللہ اور اللہ کے رسول کا ماننے والا اور موت کو برحق سمجھنے والا سچا مسلمان ہو ں اگر میں اکیلا لڑوں گا تو یاد رکھنا میں خون کے آخری قطرے اور آخری گولی تک لڑوں گا۔ دنیا کی سب سے بڑی کاروباری منڈی کو ڈھونڈتے رہ جاؤ گے۔ میں تمھارے اس کاروباری شہنشاہ کو انسانی کھوپڑیوں پر کھڑا ہوکر انسانی گوشت کا کاروبار یا حکومت نہیں کرنے دوں گا.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).