عمران خان مجھے كیوں پسند ہیں؟


ان دنوں جب ہر طرف مہنگائی اور ٹیکسز کا طوفان آیا ہوا ہے۔ کپتان کے حق میں بولنے والے افراد اکثر محفل میں تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ ہر طرف یہی سننے کو ملتاہے کہ کپتان نے سوائے مہنگائی کے قوم کو دیا کیا ہے اور یہ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے۔ مگر مہنگائی کے پیچھے کی کہانی کوئی بھی سننے کو تیار نہیں ہوتا۔ میرے اپنے گھر میں مجھے کپتان کے دفاع میں بولنے پر اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ میری اپنی کولیگز جب بھی کوئی نیا ٹیکس لگتا ہے خاص طور پر مجھے اس خبر سے آگاہ کرتی ہیں۔

پھر خان کو ڈھیر سارے کوسنے دینے اور مجھے کھری کھری سنانے کے بعد وہ اپنے باقی کام سرانجام دیتی ہیں۔ مہنگائی کے سونامی کے باوجود عمران خان آج بھی میرے پسندیدہ رہنما ہیں۔ مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب الیکشنز میں میرے علاقے کے نوجوانوں کی اکثریت رضاکار بن کر بزرگوں کو پولنگ سٹیشن تک لے کر جا رہی تھی اور انہیں تلقین کرتی تھی کہ خان کی پارٹی کو ہی ووٹ دیں۔ مقصد صرف ایک تھا کہ ہمیں ایک ایماندار لیڈر چاہیے تھا اور عمران خان سے بہتر چوائس ہمارے پاس نہیں تھی۔

کپتان کی پسندیدگی کی سب سے اہم وجہ یہی ہے کہ وہ کرپٹ نہیں ہیں۔ ان کے اندر مخالفین کا کوئی ڈر خوف نہیں ہے۔ لیڈر کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اسلامی دنیا کے تین رہنما طیب اردوان، مہاتیر محمد اور عمران خان مل کر مسلم امہ کی بہتری کے لئے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب عمران خان کرکٹ میں اپنی کم گوئی اور شرمیلے پن کی وجہ سے بھی جانے جاتے تھے۔ پھر ایک وقت آیا جب خان سیاست میں آے اور فن تقریر میں ماہر ہوتے چلے گئے۔

اس بات کا ذکر عمران اپنی کتاب میں بہت وضاحت سے کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کسی بھی پاکستانی رہنما کی یہ کوئی پہلی تقریر نہیں تھی ہاں مگر پہلی ایسی تقریر ضرور تھی جس نے حاضرین پر سکوت طاری کر دیا تھا۔ میں نے یہ تقریر کئی بار سنی ہے۔ میں دوران تقریر پلک جھپکاے بغیر اپنے لیڈر کو دیکھتی جا رہی تھی جو کبھی مسکرا رہا تھا اور کبھی جارحانہ انداز میں بڑے بڑے سچ بول رہا تھا۔ وہ کلمہ پڑھ کر سامنے بیٹھے لوگوں کو بتا رہا تھا کہ وہ اپنے رب کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا۔

مجھے لگا میرے سامنے طیب اردوان کھڑے ہوں۔ کیونکہ وہ بھی بغیر کسی خوف کے مغربی دنیا کی منافقت پر خوب بولتے ہیں۔ عمران خان نے بھی بھارت کی منافقانہ پالیسیوں پر کھل کر بات کی۔ مجھے اپنے لیڈر کی یہی جرات پسند ہے۔ لوگ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ کپتان کی تقریر سے کشمیر آزاد ہو گیا ہے کیا۔ میں ان کے اس سوال پر محض مسکرا کر ہی رہ جاتی ہوں کیونکہ مخالفین کی تعریف کرنے کا حوصلہ تو ہمارے لوگوں میں ہے نہیں مگر کمزوریاں نکالنے میں ہم پیش پیش ہیں۔

کشمیر کے مسلے کو بین الاقوامی سطح پر کپتان نے خوب اجاگر کیا ہے۔ کپتان کی اس تقریر کے بعد سوشل میڈیا پر یوتھیوں اور پٹواریوں میں لفظی جنگ کا مقابلہ شروع ہو گیا ہے۔ دونوں اپنے اپنے موقف کو سچ ثابت کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا ذور لگا رہے ہیں۔ حالانکہ ایک سادہ سی بات ہے کہ ہمارے وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں تقریر کرکے بھارت کو سفارتی سطح پر پسپا کر دیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کو ہم جھٹلا نہیں سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).