پاکستان کو خان کی منطق پر فخر ہے


وہ شخص شکل سے غصیلہ لیکن طور طریقے سے کسی پڑھے لکھے گھرانے کا لگتا تھا جو گوجرانوالہ جنرل بس سٹینڈ پر موصوف کی گاڑی کے عین سامنے اچانک نمودار ہوا اور اتفاق سے وہ اسی گاڑی میں سفر کا بھی خواہشمند تھا۔ وہ شخص اپنی من مانی طبعیت اور مزاج کی بدولت اپنی مرضی کی سیٹ لینے پر بضد تھا اور اسی ضد میں گاڑی کے جاہل کنڈکٹر سے الجھ بیٹھا، یوں دو طرفہ غصیلے رویوں کے نتیجے میں ایک معمولی بحث نے لمحوں میں بس سٹاپ پر جنگ کا سماں باندھ دیا۔

مسافر اپنی بے وقوفی کی بدولت یہ جنگ مجھ سمیت عام عوام کے سامنے ہارتا ہوا دکھائی دیتا تھا کیونکہ موجودہ ماحول میں بس سٹاپ کا سارا عملہ جاہل و غصیلے کنڈکٹر کے حق میں ہونے کے ساتھ ساتھ اس بیچارے مسافر پر جوتوں اور مکوں کی بارش کرنے کو آمادہ نظر آتا تھا۔ لمحوں میں افسانے حقیقت میں بدلے اور بس سٹینڈ پر موجود کنڈکٹر کے حق میں جمع ہونے والے جاہل عملے نے غصیلے مگر بظاہر پڑھے لکھے دکھائی دینے والے شخص پر دھاوا بول دیا۔

موصوف نے جلدی سے گاڑی سے باہر نکل کر پاس مسافر شخص کی مدد کرنے اور معاملہ رفع دفع کرانے کی کوشش میں قدم بڑھائے ہی تھے کہ اچانک اس شخص نے اونچی آواز میں لوگوں سے مدد کی اپیل کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے بس سٹینڈ پر موجود ہر سواری اس شخص کی مدد کے لیے دوڑی اور لمحوں میں ایک چھوٹے سے جاہل گروہ کی بدمعاشی کی جھاگ بٹھا دی گئی۔ یوں وہ شخص اپنی اس اونچی آواز اور ذہانت کی بدولت ایک بڑے حادثے سے بچنے کے ساتھ ساتھ بے شمار مسافروں کی ہمدردیاں بھی حاصل کر چکا تھا۔

موصوف پچھلے ایک ہفتے سے پاکستان کے ”پردہان منتری“ کے حالیہ دورہ امریکہ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ وہ مسلم اُمہ کے لیڈروں کی آپس میں ملاقاتیں ہوں، مغربی میڈیا کو دیے جانے والے بیانات ہوں، تھینک ٹینکس میں دنیا کو لرزا دینے والے بیانات ہوں یا اقوامِ متحدہ میں کی گئی تقریر کے چار بڑے عنوانات کا خلاصہ، عجب بات ہے کہ موصوف کو ان سب تجزیات، انٹرویوز اور تقاریر میں وہ پانچ سال پرانا بس سٹینڈ کے جوشیلے مسافر کا واقعہ دماغ میں گونجتا رہا جو ایک اجنبی جگہ پر اپنی ذہانت کی بدولت بڑے ہجوم کے دل جیت چکا تھا۔

موصوف کے مطابق خان کا دورہ امریکہ کا اوپر سے نیچے کی طرف موازنہ کیا جائے یا نیچے سے اوپر کی طرف، موسمی تبدیلیوں کا عنوان لیا جائے یا منی لانڈرنگ کا، اسلامو فوبیا کا حساس مدعا لیا جائے یا کشمیر پر بولے جانے والے ہر لفظ کا، پوری دنیا کے غریبوں کا کیس لڑنے کا عنوان لیا جائے یا انڈو پاک ایسکیلیشن پر اقوامِ متحدہ کی تقریر میں بولی جانے والی آخری چار جملوں کا، غرض یہ کہ ہر لحاظ سے موصوف کو خان کی منطق گوجرانوالہ کے بس سٹینڈ پر پھنسے اس مسافر کی سی معلوم ہوتی ہے جو خالی ہاتھ اور لوکل گاڑیوں کی تنگیوں میں اپنے من کی بات کو اپنی ذہانت کی بدولت ان گنت عوام سے منوا بیٹھا۔

خان بھی اپنی بات اس دورے کے دوران شور و غل سے پوری دنیا میں منوا چکا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خان اس دورہ امریکہ میں صرف پاکستانیوں یا کشمیریوں کی جنگ نہیں جیتا بلکہ اس کرہِ عرض میں رہنے والے ہر اس شخص کا سفیر بنا ہے جو امیر اور جاگیرداروں کے بنائے ہوئے ایک بوسیدہ نظام کی بدولت غربت کی چکی میں پستے ”سپائرل آف سا ئیلنس“ کا سامنا کرتے ہوئے اس دنیا کی نظر میں بھی نہیں آ سکتا۔

شاید یہ افراد دنیا کی نوے فیصد (٪ 90 ) آبادی سے بھی زیادہ ہیں۔ خان کی یہ منطق داد کی مستحق ٹھہری۔ ایک غریب ملک کے کرپٹ اور فرسودہ نظام کو للکارنے والا یہ شخص دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کے کرپٹس اور ایلیٹس کو للکارتا، ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا، دنیا کی٪ 90 غریب عوام کا سفیر بن کر ابھرتا ہے۔

آخر میں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ خان صاحب نے بس سٹینڈ والا واقعہ تو حقیقتاً نہیں دیکھا ہو گا لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ جب ایک خوددار اور غیرت مند شخص یا ملک وقوم کی عزت کو للکارا جائے تو انسانی فطرت کا یہی تقاضا ہے کہ عزت و وقار کی خاطر اپنی جان کی پروا کیے بغیر اپنے کیس کو پورے زور و شور سے لڑا جائے جس میں اس مسافر کی طرح خان بھی سرخرو ٹھہرتاہے۔ پاکستانیوں کو خان کی اس منطق پر فخر ہے۔

عابد ظفر ماس میڈیا ریسرچ ودرس وتدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).