خورشید شاہ کے ساتھیوں سے تفتیش


پہلے ہی شاہد خاقان عباسی نے گرفتار ہوکر نیب والوں کے لیے مصیبت کھڑی کررکھی تھی کہ ایل این جی اور معیشت جیسے موضوعات پر تفتیشی افسران کی گرفت نہیں ہے۔ الٹے سیدھے سوالات سابق وزیر اعظم سے کرتے رہتے ہیں کہ آپ نے بطور وزیر اعظم گاڑی کیوں استعمال کی؟ شاہد خاقان نے بھی خوب جواب دیا تو کیا میں تانگہ استعمال کرتا؟ اس ہی طرح ایک پیشی کے موقع پر شاہد خاقان نے میڈیا سے کہا کہ نیب والوں کو سکھا رہے ہیں، یہ تعلیم بالغاں ہے وقت لگے گا۔

حال ہی میں گرفتار ہونے والے خورشید شاہ نے اب نیب کی کارکردگی کو مزید بے نقاب کرنا شروع کردیا ہے۔ جیالے رہنما سے ہونے والی تفتیش سے معلوم ہوتا ہے کہ نیب نے ہوم ورک کیے بغیر ہی خورشید شاہ کو گرفتار کرلیا۔ اب گرفتار کر لیا ہے تو کوئی کارروائی بھی کرنی ہوگی۔

بوریت سے تنگ آکر نیب اہلکاروں نے خورشید شاہ کے دوستوں لڈو مل، پہلاج رائے اور غلام شبیر عرف پپو مہر سے پوچھ گچھ کی۔ سوال ہوا آپ کے پاس سینکڑوں ایکڑ زرعی زمین کہاں سے آئی؟ کون کون سی زمینیں خورشید شاہ نے آپ کے نام کیں؟ آپ کی فیکٹری میں خورشید شاہ کے کتنے شیئرز ہیں؟ کیا خورشید شاہ آپ کے پارٹنر ہیں؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات! نیب نے انہی کاروباری حضرات سے ان کی جائیدادوں کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نیب کے پاس ثبوت تھے ہی نہیں، ایسے ٹھوس دستاویز جن سے ثابت ہوتا خورشید شاہ نے کب اور کون سی جائیداد یا زمین اپنے کس فرنٹ میں کے نام کی؟ کس فیکٹری میں جو شیئر ہیں وہ خورشید شاہ ہی کے ہیں؟ اور اگر کوئی جائیدادیں بنیں بھی تو وہ کرپشن سے بنیں۔ آخر کرپشن کہاں ہوئی؟ پیسہ کہاں سے کہاں پہنچا؟ بنیادی سوالات کے جواب اور شواہد کے بغیر اپوزیشن کے رہنما کو گرفتار کرلینا مذاق نہیں تو کیا ہے؟

اب سندھ کے کاروباری حضرات نیب میں پیش ہوکر خورشید شاہ کے حق میں گواہیاں دے رہے ہیں۔ کاروباری آدمی پیسہ بنانے میں توجہ دے یا پیشیاں بھگتے؟ سندھ کی کاروباری شخصیت لڈو مل کو نیب نے طلب کرکے پوچھا کہ کراچی کے تین تلوار پر آپ کے جو دو فیلٹس ہیں کیا وہ خورشید شاہ کے ہیں؟ موصوف نے جواب دیا، اگر میرے ایسے دو فلیٹس ہیں تو وہ آپ رکھ لیں کیوں کہ تین تلوار پر میرے کوئی فلیٹس نہیں ہیں۔ اور جو جائیدادیں آپ خورشید شاہ کی پارٹنر شپ میں دکھا رہے ہیں وہ ہماری ہیں۔ ان جائیدادوں سے خورشید شاہ کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔

اس سے قبل خورشید شاہ خود بھی نیب کو ایک دلچسپ پیکشکش کرچکے ہیں کہ کرپشن کا جتنا پیسہ اور بے نامی جائیداد مجھ پر ڈالی ہے اس کا پندرہ فیصد مجھے دے دو باقی نیب رکھ لے۔ ایسے حالات میں نکلوالیے کپتان نے ان حضرات سے پیسے اور ہم نے دیکھ لیا۔

ابھی کل ہی کی بات ہے شرجیل میمن جب گرفتار ہوئے۔ کیسی کیسی افواہ اڑی کے بیڈروم سے اربوں روپے برآمد ہوئے ہیں، لانچیں نوٹوں سے بھر کر دبئی جاتی تھیں۔ اب وہی شرجیل میمن عدالت سے ضمانت پر رہا ہوکر مزے سے گھوم رہے ہیں بلکہ ہر چوتھے روز عدالت پہنچ جاتے ہیں، نیب کے تفتیشی افسر مگر نہیں آتے۔ سماعت اکثر بغیر کارروائی کے ملتوی ہوجاتی ہے۔

نیب کی کارروائیوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو باتیں کروڑوں کی اور دکان پکوڑوں کی۔ جیسے نواز شریف کو ہائی جیکر ثابت نہیں کیا جاسکا، جیسے مشرف کو غدار ثابت نہیں کیا جاسکا، جیسے آصف زرداری کرپٹ ثابت نہیں ہو سکے۔ جیسے بھٹو کے قتل سے عدالتیں بے آبرو ہوئیں بالکل ویسے ہی خورشید شاہ، شاہد خاقان عباسی اور ان جیسے دیگر سیاستدان گرفتار ہوکر عدالتوں کا کردار قوم پر واضح کررہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).