سندھ کی بیٹی، بہتا ہوا پیشاب اور فسٹیولا کی بیماری


انگلستان میں سالہا سال کام کرتا رہا، نہ جانے کیا کیا سیکھتا رہا۔ کینسر کا علاج، بانجھ پن کا مسئلہ، ٹیسٹ ٹیوب بے بی۔ وہاں میں نے ہزاروں عورتوں کو دیکھا تھا مگر کبھی بھی کوئی فسٹیولا نہیں دیکھا تھا۔ کراچی واپس آکر ہر تھوڑے دنوں بعد کوئی نہ کوئی عورت فسٹیولا کے ساتھ آجاتی تھی۔ پھر میں آہستہ آہستہ فسٹیولا صحیح کرنے لگ گیا اور باقی چیزیں بھولتا چلا گیا، مگر موران کا فسٹیولا اتنا بڑا تھا کہ تمام کوششوں کے باوجود میں ہارگیا۔

تھوڑے دنوں کے بعد ہم لوگوں نے اسے دماغی امراض کے وارڈ میں بھیج دیا۔ مجھے پتا لگا تھا کہ دواؤں نے اس پر کوئی اثر نہیں کیا تھا۔ جس کے بعد اسے بجلی کے جھٹکے دیے گئے تھے۔ وہ بولنے لگی تھی، اس کی ماں اس کے ساتھ تھی مگر موران اپنی ماں سے کم بولتی تھی بلکہ اس سے جھگڑا کرتی رہتی تھی۔ گاؤں نے موران کو مسترد کردیا تھا۔ موران کا باپ، شوہر، سسرالی سب سمجھتے تھے کہ اس پر کسی آسیب کا سایہ ہے۔ گاؤں کے مولوی نے بھی یہی کہا تھا کہ جس لڑکی کا پیشاب بہتا رہے وہ ناپاک ہوتی ہے اور ناپاکوں سے صرف شیطان کی دوستی ہوتی ہے۔

موران کو اپنے شوہر کا غم تھا جس نے قسمیں بھلادی تھیں، وعدے بھول گیا تھا۔ اس پیشاب کے بہنے میں اس کا توکوئی قصور نہیں تھا۔ یہ تو اس آنے والے بچے کی وجہ سے ہوا تھا جو اس کے شوہر کا بچہ تھا۔ ان کی محبت کی یادگار، ان کے خاموش اور ذاتی لمحات کا تحفہ۔ وہ اسے دیکھتی اور روتی تھی۔ اسے اپنے نامکمل جسم سے آہستہ آہستہ نفرت سی ہوتی جارہی تھی۔ اسے سب نے مسترد کردیا تھا۔ موران کسی کو بھی مسترد نہیں کرسکتی تھی۔

وہ تو صرف اپنی ماں کو ہی مسترد کرسکتی تھی۔ نہ جانے کیوں اسے اپنی ماں سے نفرت ہوگئی تھی۔ ایک روز میں اس کی ماں کے ساتھ دماغی امراض کے وارڈ میں اسے دیکھنے گیا۔ وہ وارڈ کے چوکیداروں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ایک عجیب قسم کا ایک آدمی اور بھی تھا وہاں پر۔ ایسا ہی آدمی جن کو سول ہسپتال میں دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ چاروں طرف گھومتے رہتے ہیں۔ کبھی دواؤں کے بہانے سے، کبھی خون کے بہانے سے، کبھی کسی اور چیز کے بہانے سے۔

یہ لوگ مریضوں کی بیٹیوں، بیویوں، بہنوں اور یہاں تک کہ مریضوں کے ساتھ بھی وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں جو کہانیوں میں ہوتا تھا۔ نہ جانے کتنے معصوموں کو پامال کیا ہے ان لوگوں نے۔ ہم دونوں کو دیکھ کر وہ لوگ فوراً ہی چلے گئے۔ موران بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ اس نے ایک پشیمانی کی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھا اور اپنی ماں پر ناراض ہونے لگی۔ تھوڑی دیر میں میں واپس آگیا۔

دو دن بعد صبح صبح میں اپنے کمرے میں پہنچا ہی تھا کہ موران کی ماں روتی ہوئی آئی۔ ”ڈاکٹر وہ چلی گئی۔ پتا نہیں کدھر ہے؟ “ کل دوپہر کے بعد سے موران وارڈ چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ میرے کمرے کے بنچ پر بیٹھی ہوئی وہ بے سہارا عورت ایک بڑھیا کی طرح بین کررہی تھی۔ ”وہ مر کیوں نہیں گئی۔ مجھے چھوڑ کر کہاں چلی گئی، موران موران۔ “

میں سوچتا رہا، ٹھٹھہ کا گاؤں، ٹھٹھہ کا ہسپتال، بچہ جننے والی عورت اور سندھ کے وڈیرے، جاگیردار، پیر، فقیر، پاکستان کے سرمایہ دار، چوہدری، مولوی، امیر و کبیر جو اپنے بچوں کے ٹانسل نکلوانے امریکا جاتے ہیں، جواپنے بچے کے آپریشن کے لئے لندن جاتے ہیں، لاکھوں ڈالر، لاکھوں پاؤنڈ اور ٹھٹھہ کا ہسپتال، جہاں نہ ڈاکٹر ہے نہ نرس، نہ آکسیجن ہے نہ پانی۔ موران ہے موران کی ماں ہے، درد بھری زندگی ہے اور فسٹیولا ہے۔

دو دن تک اس کی ماں پاگلوں کی طرح گھومتی رہی۔ بچوں کی طرح بلکتی رہی، کوشش کے باوجود موران کا کچھ پتا نہیں چلا۔ پھر وہ واپس ٹھٹھہ چلی گئی۔

کئی مہینوں کے بعد میں کلفٹن آغا سپرمارکیٹ کے سامنے اپنی گاڑی سے ٹیک لگائے اپنے دوست امجد کا انتظار کررہا تھا کہ میرے سامنے ایک لمبی سی گاڑی رُکی۔ اس میں سے ایک گندا سا عرب زور سے ہنستا ہوا اُترا، اور آغا سپرمارکیٹ میں چلا گیا۔ دروازہ کھلتے ہی خوشبو کا تیز بھبکا میں نے محسوس کیا۔ اندر موران بیٹھی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ باہر آگئی۔ وہی خوبصورت لڑکی، اسی ناک نقشے کے ساتھ، وہی چہرہ، وہی آنکھیں، وہیں معصوم صورت، حسن کی مکمل مورت، کلاڈیا شیفر کا سا انداز، یاسمین غوری جیسی سیاہ اور گہری آنکھیں، نومی کیمبل کا سا نکلا نکلا لانبا سا بدن، جیری ہل کی طویل گردن اورمادھوری ڈکشٹ کے نپے تلے ہوئے قدم، بھارت نا ٹیم کا رقص۔

وہ دھیرے سے مسکرائی اور میرے قریب آکر عجیب سے انداز سے بولی۔ ”میری ماں گاؤں چلی گئی تھی۔ میرے پاس کچھ نہ تھا اس کے لئے۔ صرف پیشاب تھا پیشاب۔ اس پیشاب کو چھپانے کے ئے میں خوشبو میں ڈوبی ہوئی ہوں۔ “ اس نے اپنی لانبی لانبی پلکوں والی آنکھوں کو اٹھا کر دھیرے سے کہا۔ ”میں رنڈی بن گئی ہوں۔ “ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا وہ گندا سا عربی آگیا اور وہ اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی۔

میں نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔ مجھے ایسا لگا جیسے اوپر بہت اوپر ایک بڑا سا فسٹیولا ہے، جہاں سے موران کا پیشاب بہہ بہہ کر آرہا ہے۔ میرے سامنے سندھ کے، پنجاب کے، پاکستان کے، چانڈیو، بگھیو، بھٹو، تالپور، جونیجو، شاہ، پیر، لغاری مزاری، سومرو، چوہدری اپنی بڑی بڑی پگڑیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، جن کو تر کرتا ہوا یہ پیشاب ان کی پیشانی اور چہروں سے رستا ہوا، ٹپ ٹپ ٹپ کرکے سندھ کی دھرتی میں جذب ہو رہا ہے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3