سندھ کی بیٹی، بہتا ہوا پیشاب اور فسٹیولا کی بیماری


بوڑھی سی نرس جس نے موران کو دیکھا، اس نے موران کی ماں کو سمجھایا کہ موران کو فوراً کراچی کے سول ہسپتال لے کر چلی جائے، کیونکہ اس کا تو آپریشن ہوگا، آپریشن کرنے والی ڈاکٹر آ بھی گئی تو بے ہوش کرنے والا ڈاکٹر نہیں ہے اور پچھلے ایک ہفتے سے آکسیجن بھی ختم ہوگئی تھی۔ اس ہسپتال میں ہے کیا، انگریزوں کی بنائی ہوئی پتھر کی عمارت، اس عمارت کے پتھر بھی بک جاتے اور سرکاری اہلکار انہیں بھی اپنے گھروں میں لگالیتے اگر ان کا بس چلتا۔ یہ ہسپتال تھوڑی تھا کچھ لوگوں کے پیدا کرنے کے لئے جگہ تھی۔ ہزاروں سال پرانے ٹھٹھہ شہر میں ہزاروں سال سے زمین پر رہنے والوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا آیا ہے وہی اب تک ہورہا ہے۔ علاقے کے ایم این اے، ایم پی اے، کونسلر اورسرکاری اہلکار کے وہ مسائل ہیں ہی نہیں جو موران اور اس کی ماں کے تھے۔

موران کی ماں کو ایسا لگا جیسے اب اسے زندگی کا بقیہ سفر موران کے بغیر ہی گزارنا ہوگا۔ اس کے دل میں ایک ہوک سی اُٹھی تھی، ایک درد سا ہوا تھا۔ کھلے ہوئے نیلے آسمان کی طرف دیکھ کر اس کے آنسو نکل آئے تھے۔ گڑگڑا کر اس نے دُعائیں کی تھیں۔ سیہون کا واسطہ دیا تھا۔ ٹھٹھہ کے مزاروں کی قسم دی۔ ان پیروں اور شاہوں کو یاد کیا جن کے پاؤں پر اس کے گاؤں کے لوگ سر رکھتے تھے، جن کے کہنے سے ووٹ دیتے تھے، جن کے حکم پر جان دیتے تھے۔ آسمان سے زمین تک سیہون سے ٹھٹھہ کے مزاروں تک سناٹا تھا، خاموشی تھی اورزندگی ایک ایسا سفر تھی جو ختم ہونے سے پہلے چرکے پر چرکا لگارہا تھا۔

منگھی ٹرانسپورٹ کی بس پر درد سے تڑپتی ہوئی موران نے اپنا سفر شروع کیا۔ گھارو، گجوالے جی، دھابے جی، پپری، اسٹیل مل، لانڈھی، ملیر، ڈالمیا، سبزی منڈی، تین ہٹی، لسبیلہ اور گارڈن سے ہوتی ہوئی، جھٹکے کھاتی ہوئی موران کی طرح سے ہی تڑپتی ہوئی بس لی مارکیٹ پہنچی۔ ادھ مری موران کو ٹیکسی میں ڈال کر وہ سول ہسپتال پہنچے۔

ڈاکٹروں نے دیکھا اور اسے آپریشن تھیٹر لے کر گئے۔ بخش علی نے خون دیا، نیچے میڈیکل اسٹور سے بھاگ بھاگ کر دوائیں لایا، بے ہوشی کی دوا، اینٹی بائیوٹک، پیشاب کی نلکی، پیشاب کی تھیلی، روپے آہستہ آہستہ ختم ہوتے جارہے تھے۔ بخش علی کا چہرہ سوکھتا جارہا تھا اور اس کی ماں کی آنکھوں میں آنسو ختم ہوتے جارہے تھے۔ زندگی صحرا کی طرح خشک بھی تھی اور ویران بھی۔

مری ہوئی بچی پیدا ہوئی تھی۔ موران کی ماں نے سوچا اچھا ہوا مرگئی۔ بچی کے لئے سندھ میں رکھا ہی کیا ہے۔ اسے صرف موران کی فکر تھی۔ جب وہ آپریشن تھیٹر سے نکلی تو اسے ایسا لگا کہ وہ مرچکی ہے۔ اس کے منھ، ہاتھ، پیٹ اور نہ جانے کہاں کہاں ٹیوب لگے ہوئے تھے۔ خون جارہا تھا، خون آرہا تھا۔ بہت دیر تک اس کے خشک حلق میں سانس اٹکی رہ گئی۔

دو دن بعد موران کو ہوش آیا۔ بخار سے تپا ہوا چہرہ اوربدن۔ اس نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں۔ اس کی ماں کو لگا جیسے خود اس نے آنکھیں کھول دی ہیں۔ جیسے دنیا دوبارہ خودبخود وجود میں آگئی ہے۔ کائنات رقص کررہی ہے اورسندھ کے صحرا بارش سے جل تھل ہوگئے ہیں۔

موران کو دس دن ہسپتال میں رہنا پڑا۔ دسویں دن جب ڈاکٹروں نے پیشاب کی نالی نکالی تو پیشاب خود بخود آنے لگا تھا۔ وہ پیشاب روک نہیں سکتی تھی۔ وہ لیٹی ہو کہ بیٹھی ہو، کھڑی ہو کہ چلتی ہو، پیشاب آہستہ آہستہ بہتا رہتا تھا۔

ڈاکٹروں نے دیکھا اور کہا تھا کہ موران کو دس ہفتے کے بعد دوبارہ لانا ہوگا۔ اس وقت اس کا آپریشن کیا جائے گا جس سے پیشاب رُک جائے گا۔

جس دن میں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا تو وہ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق آپریشن کے دس دن بعد میرے کلینک آئی تھی۔ اس کی ماں اور بخش علی ساتھ تھے۔ اس کا سُتا ہوا چہرہ، اس کی لانبی لانبی پلکوں کے ساتھ بڑی بڑی سیاہ آنکھیں، اس کی طویل گردن اور گھنے بالوں سے بھرا ہوا سر۔ وہ اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ سندھی لڑکیوں کے بارے میں میرے ذہن میں بسے ہوئے خیال کو نکال چکی تھی۔ اسے فسٹیولا ہوگیا تھا۔ میں نے اس کے شوہر کو بتایا کہ اس کی پیشاب کی تھیلی اور بچہ دانی کے راستے کے درمیان سوراخ ہوگیا ہے۔

میں نے ایسے بہت سے مریض دیکھے تھے۔ جب بچہ پیدا ہونے میں دیر لگاتا ہے اور اس کا سر کسی وجہ سے پھنس جاتا ہے تو اس سر کے دباؤ کی وجہ سے پیشاب کی تھیلی اور بچہ دانی کے راستے کے درمیان میں سوراخ ہوجاتا ہے۔ پھر پیشاب رُکتا نہیں ہے، جتنا بھی پیشاب آتا ہے وہ اس سوراخ سے رستا رہتا ہے۔ موران کا فسٹیولا بہت بڑا تھا۔

اسے میں نے ہسپتال میں داخل کرلیا تھا۔ اس کا پہلا آپریشن ناکام ہوگیا تھا۔ وہ دس دن ہسپتال میں رہ کر واپس ٹھٹھہ چلی گئی۔ سوراخ اتنا بڑا تھا کہ باوجود تمام کوششوں کے مکمل طور پر بند نہیں ہوسکا۔ اسے میں نے چھ ہفتے کے بعد بلایا تھا۔

چھ ہفتے کے بعد موران اپنی ماں کے ساتھ دوبارہ آئی۔ وہیں اُداس چہرہ، امید لئے ہوئے، سب کچھ وہی تھا۔ موران کی ماں نے بتایا کہ بخش علی نے موران کو چھوڑدیا ہے۔ گاؤں میں کوئی اس سے نہیں ملتا، اس کے پاس سے ہر وقت بو آتی رہتی ہے۔ اس نے میرے پیروں کو پکڑلیا۔ اتنی عاجزی سے مجھ سے کہا کہ ”ڈاکٹر میری بیٹی کو صحیح کردو، میرا تو کوئی اور ہے بھی نہیں۔ “ اس کے جڑے ہوئے ہاتھوں کو تھام کر میں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی سندھی میں کہا تھا۔

”کوشش کروں گا، ضرور کوشش کروں گا۔ “ اس کے کپکپاتے ہوئے ہاتھ لرز رہے تھے، اس نے بڑے چاؤ سے، بڑی محبت سے میرے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے یہ موران کی ماں کے ہاتھ نہیں ہیں بلکہ میری ماں کے ہاتھ ہیں۔ محبتوں سے بھرپور جذبوں سے سرشار، مگر میں کچھ نہ کرسکا، چاہنے کے باوجود۔ چار گھنٹے تک آپریشن کرنے کے باوجود۔ دوسرا آپریشن بھی ناکام ہوگیا۔ میں موران کی ماں سے آنکھ نہیں ملا سکا تھا۔

اس کے بعد وہ بہت دنوں کے بعد آئی۔ اس کی ماں اس کے ساتھ تھی۔ اسے وارڈ میں داخل کرکے دو دن کے بعد وہ چلی گئی۔ موران کے لئے میں نے ایک اور آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ایک سرجن دوست کے ساتھ مل کرایک نئی پیشاب کی تھیلی بنانے کی کوشش کی تھی۔ پہلے پانچ دن تک اس کا پیشاب آنا بند ہوگیا۔ ہم سب خوش تھے، بڑے پُراُمید، مگر چھٹے دن پیشاب پھر آنے لگا تھا۔ وہ بڑی پریشان تھی، بالکل پاگلوں کی طرح سے، کبھی ہنستی تھی، کبھی روتی تھی۔ نہ کوئی سوال نہ کوئی جواب۔ کبھی کھایا، کبھی نہیں کھایا۔ میں اسے دیکھتا تھا اور اس کی ماں کا پتھرایا ہوا چہرہ میرے سامنے آجاتا تھا۔ کاش! میں کچھ کرسکتا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3