تعلیمی زبوں حالی کا ذمہ دار کون


کہنے کو تو تعلیم ہر حکومت کے منشور کا حصہ ہوتی ہے لیکن حکومت جانے کے بعد اس کی حالت زار کا اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیم کے ساتھ کتنا کھلواڑ کیا گیا ہے۔ گلگت بلتستان میں گزشتہ ادوار میں تعلیم کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی ہے، جتنے بھی اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ ناکافی ہیں۔ آج کی صورتحال کے ذمہ دار آج کے صاحب مسند نہیں ہیں بلکہ اس کے ذمہ داروں کے تعین کے لئے کم از کم 20 سال پیچھے جانا پڑے گا جن کی پالیسیاں آج ہمارے سروں پر لٹکی ہوئی ہیں۔

گزشتہ ماہ فیڈرل بورڈ کے نتائج میں گلگت بلتستان کے کالجوں کا جو پول کھل گیا ہے اس سے تعلیمی حلقے ہکا بکا رہ گئے ہیں۔ 18 کے قریب کالجوں میں سے 6 کالجوں کا نتیجہ ڈبل فگر تک نہیں پہنچا جن میں ایک کالج کے 75 سارے طلباء ہی ناکام ہوگئے۔ گلگت بلتستان کے کالجوں کا یہ پہلا تعلیمی سال تھا کیونکہ اس سے قبل امتحانات قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے زیر انتظام قراقرم بورڈ کے ساتھ منعقد ہواکرتے تھے۔ صوبائی حکومت گلگت بلتستان نے کابینہ فیصلے کی روشنی میں قراقرم بورڈ سے الحاق ختم کرکے فیڈرل بورڈ سے کردیا۔

اس فیصلے پر قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی نے شدید احتجاج بھی کیا لیکن فیصلہ واپس نہیں ہوسکا۔ یوں یہ امتحانات گلگت بلتستان کے کالجوں کے لئے حقیقی معنوں میں پہلا امتحان تھا جس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ بدترین تعلیمی نتائج کے ذمہ دار کا تعین کرنا ناگزیر تھا۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ذمہ داران سینہ چوڑاکرکے چل رہے تھے کہ فیڈرل بورڈ سے الحاق کا یہ نتیجہ آگیا ہے۔ گلگت بلتستان اسمبلی میں متحرک اور فعال رکن نواز خان ناجی نے توجہ دلاؤ نوٹس کے اس جانب توجہ دلائی۔ تمام اضلاع میں کالجوں کے نتائج پر سخت تنقید ہوتی رہی یہاں تک کہ سوشل میڈیا گروپوں میں توں توں میں میں جاری رہی۔

یہ کہانی رکی نہیں تھی کہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے طلباء و طالبات نے احتجاج شروع کردیا۔ طلباء و طالبات نے بڑے عزم کے ساتھ شروع میں یونیورسٹی کے اندر احتجاج جاری رکھا اور کلاسوں کا بائیکاٹ کردیا۔ بعد ازاں یونیورسٹی کے قریبی چوک پر نکل آگئے اور شدید نعرے بازی کرتے ہوئے ٹریفک کا نظام جام کردیا۔ طلباء و طالبات کا موقف تھا کہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا ہے جو کہ غریبوں کو تعلیم سے دور کرنے کی پالیسی ہے۔

اسی دوران اے آر وائی کے اینکر پرسن اور سینئر صحافی عادل عباسی سے ایک نشست کے دوران یونیورسٹی طلباکا ایک وفد بھی آگیا اور انہوں نے اپنا مدعا پیش کیا۔ اس وقت شدید حیرت ہوئی جب عادل عباسی صاحب نے فیسوں میں اضافے کی وجوہات پوچھیں، طلباء نے انہیں بتایا کہ قراقرم بورڈ سے سرکاری سکولوں اور کالجوں کا الحاق ختم کرکے وفاقی بورڈ سے الحاق کردیا گیا جس کی وجہ سے مالی بحران پیدا ہوگیا۔ چونکہ طلباء کی نمائندگی کرتے ہوئے وفد آگیا تھا اس لئے زیادہ مناسب نہیں تھا کہ ان سے بحث کی جائے یا انہیں غلط قرار دیا جاتا۔

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے زیر انتظام قراقرم بورڈ کسی سفید ہاتھی سے کم نہیں ہے۔ بدقسمتی سے تعلیمی نظام میں چیک اینڈ بیلنس، جزا اور سزا کا تصور نہیں ہے جس کی وجہ سے ادارے مافیا بنے ہوئے ہیں۔ میں نے 2014 میں قراقرم بورڈ میں اپنا انٹر سرٹیفکیٹ جمع کرایا، مجھے بتایا گیا کہ انٹرکے مارک شیٹ کی جانچ پڑتال ہوگی اس کے بعد آپ بی اے کے امتحان میں شریک ہونے کے اہل ہوں گے۔ دو ماہ کے بعد دوبارہ رجوع کیا کہ جانچ پڑتال مکمل ہوئی ہے تومجھے اوکے سگنل دیدیا جائے۔

لیکن اوکے سگنل نہیں ملا بلکہ امتحانی فیس جمع کرانے کے آخری دنوں تک مارک شیٹ کی تصدیق نہیں ہوسکی اور بتایا گیا کہ آپ حلف نامہ جمع کرائیں کہ یہ ڈگری جعلی نہیں ہے، جعلی ہونے کی صورت میں اس کا ذمہ دار میں خود ہوں گا۔ آج چھ سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے لاہور بورڈ سے ایف اے کا مارک شیٹ واپس نہیں آسکا ہے۔ قراقرم بورڈ میں امتحانی پرچے چیک کرنے کا نظام بھی انوکھا ہے۔ جن دنوں میں پرچے چیک کیے جاتے تھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ محکمہ تعمیرات کا کوئی ٹینڈر کھل رہا ہے۔

شہر کے اندر معمولی اثر رسوخ رکھنے والوں سے لے کر قریبی رشتہ داروں کی لائن لگی رہتی تھی۔ اس سلسلے نے ہمیشہ طلباء و طالبات کو ذہنی ازیت میں مبتلا کیے رکھا ہے۔ پھر امتحان گاہ میں فرائض نبھانے والوں کی فہرست بھی ایسی ہی کچھ رہی ہے۔ من پسند افراد کو من پسند امتحان گاہوں میں تعینات کیا جاتا ہے۔ کمال اس وقت نظر آتا تھا جب نتائج کا اعلان ہوتا، اکثر پاس ہوتے لیکن انتہائی کم نمبروں سے۔ اس کے برعکس دیگر کسی بھی بورڈ کی صورتحال دیکھی جائے تو زیادہ سے زیادہ کے لئے ایک نمبر کے لئے طلباء و طالبات میں سخت مقابلہ ہوتا ہے۔

قراقرم بورڈ یوں بھی انوکھا بورڈ ہے جو انٹر اور میٹرک کے امتحانات منعقد کراتا ہے اورخود کسی تعلیمی جامعہ سے منسلک ہے۔ دیگر علاقوں میں ہر ڈویژن کا اپنا مقامی بورڈ ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ گلگت بلتستان کے اپنے کچھ ’ہونہار‘ طلباء کوہستان میں جاکر امتحانات دے کر آتے ہیں۔ کشمیر سمیت کسی بھی صوبے میں صورتحال دیکھ لیں کوئی بھی ایسا بورڈ نہیں ملے گا جو خود کسی یونیورسٹی کے ساتھ منسلک ہوں۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی ن ییہ بات طلباء کے کانوں میں ڈال دی کہ بورڈ کا فیصلہ واپس کیے جانے کی وجہ سے مالی بحران آیا ہے۔

یہ منطق ابھی تک سمجھ نہیں آئی ہے کہ انٹر اور میٹرک کے طلباء سے بھاری فیسیں لے کر یونیورسٹی پر خرچ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ ادھر طلباء و طالبات احتجاج میں تھے ادھر یونیورسٹی میں گریڈوں میں اضافے کیے جارہے تھے۔ حقیقی معنوں میں مالی بحران ہے تو طلباء سے قبل یونیورسٹی کو صبر کرنا ہوگا۔ اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق 70 کے قریب پروفیسر صاحبان بیرون ممالک اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں بمعہ تنخواہ، جبکہ ان کے متبادل کے طور پر نئے صاحبان کی بھی تقرری کی گئی ہے، یوں صرف ایک پروفیسر کی آسامی پر دو افراد تنخواہ لے رہے ہیں۔

بہرحال بورڈ کی ساری صورتحال ایک طرف لیکن صوبائی حکومت جی بی نے یہ فیصلہ بڑی دیر سے کردیا۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے اسمبلی فلور میں اس بات کا کھلے لفظوں اعتراف کرلیا کہ ہماری توجہ سکولوں پر زیادہ تھی اور کالجوں کووہ توجہ نہیں ملی جس کے و ہ مستحق ہیں۔ فیڈرل بورڈ کے نتائج کی وجہ سے معلوم پڑگیا کہ کون سی کالج خشکی میں اور کون سی پانی میں ہے یا ان کی شرح کیاہے؟

گلگت بلتستان حکومت بھی معیاری تعلیم کے لئے ابھی تک وہ فیصلے نہیں کرپائی ہے جس سے تعلیمی نظام درست ہوسکے۔ گو کہ ٹیسٹنگ سروسز اور ایف پی ایس سی کے ذریعے اساتذہ اور پروفیسرز کی تعیناتی کی گئی ہے لیکن اب بھی قابل ترین اساتذہ کی بڑی تعداد انتظامی پوسٹوں پر منتقل ہوئی ہے اور وہی پہ ’انجوائے‘ کررہے ہیں۔ گلگت بلتستان کا نہ اپنا مقامی بورڈ ہے اور نہ ہی مقامی نصاب ہے۔ دو سال قبل مقامی زبانوں کو نصاب کا حصہ بنانے کے لئے 6 کروڑ روپے مختص کیے گئے، معلوم نہیں ان کا کیا بنا۔

انتہائی غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوتا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ نصاب کو اپ گریڈ کریں۔ نصاب پر تحقیق، نصاب کی تدوین و توثیق کے علاوہ مقامی زبانوں کی ڈھارس بندھائے۔ ورنہ ہوائی نتائج کبھی بہتر بھی ہوں گے کبھی بدتر بھی ہوں گے لیکن تعلیم کا مقصد پورا نہیں ہوگا اوریہ زبوں حالی چلتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).