ترکی میں تقریر لائیو دکھائی گئی ۔ کپتان نے ترکوں سے داد پائی


پاکستانی وزیر اعظم عمران خان جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے، تو میں اسوقت ترکی کے دارلحکومت انقرہ کی ایک سڑک سے گزر رہا تھا ۔میں نے دیکھا کہ چائے خانوں میں بڑی تعداد میں لوگ بغور ان کی تقریر سننے میں محو تھے۔ نہ جانے کیسے یہ بات زد و وعام تھی، وہ کوئی تاریخی تقریر کرنے والے ہیں۔ کئی ترک چینل نہ صرف تقریر براہ راست نشر کر رہے تھے، بلکہ اسکا ترک ترجمہ بھی ناظرین تک پہنچا رہے تھے۔ اسلاموفوبیا اور توہین رسالت پر جب عمران خان دلائل پیش کر رہے تھے، تو انقرہ جیسے شہر میں جو استنبول اور اناطولیہ کے دیگر علاقوں کے برعکس کمال ازم اور انتہا پسندانہ سیکولرازم کے رنگ میں رچا ہو ا ہے، میں کیفے میں ان کی تقریر دیکھنے اور سننے والے افراد تالیوں سے اس کی ستائش کر رہے تھے۔

عالم اسلام کی تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن یعنی او آئی سی پر اس کی تاسیس سے ہی ایک طرح سے سعودی عرب اور پاکستان کی اجارہ داری رہی ہے۔ جس طرح اقوام متحدہ کے بجٹ کے ایک بڑے حصہ کو امریکہ تعاون دیکر سپر پاور کی حیثیت جتلاتا ہے، اسی طرح سعودی عرب بھی خاصی حد تک سیکریٹریٹ وغیرہ کا بجٹ فنڈ کرکے اس تنظیم میں امریکہ جیسا رول ادا کرتا آیا ہے۔ پاکستان ایک طرح سے رابطہ کار اور فکری راہنمائی فراہم کرتا تھا۔ چونکہ پاکستان کا وزیر خارجہ یا اسکے افسران اچھی بامحاورہ انگریزی جاننے اور بولنے والے ہوتے تھے، کانفرنس کی قرار دادیں اور دیگر کاروائی کے متن کو ترتیب دینا ان کی ذمہ داری ہوتی تھی۔

مگر اب پچھلی ایک دہائی سے لگ رہا تھا کہ عالم اسلام کی لیڈرشب بتدریج سعودی عرب اور پاکستان کے ہاتھوں سے نکل کر ترکی اور ایران کے پاس آرہی ہے۔ موجودہ تناظر میں اگر جائزہ لیا جائے تو ترکی، ملائشیا اور پاکستان عالم اسلام کے نقیب بن کر ابھر رہے ہیں۔ چونکہ ان ممالک کے سربراہان نے مغرب اور اسکی جمہوریت کو قریب سے دیکھا ہے، اسلئے شاید وہ مدلل انداز میں مغرب کے ساتھ مکالمہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ امید تھی کہ بھارتی وزیر اعظم کی تقریر بھی خاصی زوردار ہوگی۔ اس عالمی فورم کا استعمال کرتے ہوئے وہ دنیا کو بتا دیں گے کہ ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرنا اور وہاں بندشیں عائد کرنا آخر کیوں ضروری تھا۔

یوں تو ہر عالمی فورم میں بھارتی مندوب کسی بھی مشترکہ اعلامیہ میں دہشت گردی اور اسمیں پاکستان کا نام جوڑنے پر بضد ہوتے ہیں، مودی کی تقریر اس کے برعکس تھی۔ ہندی میں تقریر کرتے ہوئے بھی لگتا تھا کہ وہ اپنے روایتی جارحانہ اور تیز و طرار گفتار کے موڈ میں نہیں تھے۔ ان کی باڈی لنگویج سے خود اعتمادی بھی جھلک نہیں رہی تھی۔ شاید تقریر سے قبل نیو یارک میں مختلف سربراہان مملکت کے ساتھ ان کی ہونے کے ملاقاتوں کا یہ اثر تھا یا کچھ اور، اس کا تجزیہ کرنے اور اسکی تہہ تک جانے کی ضرورت ہے۔ ایک عرصہ قبل مغربی ملک کے ایک سفارت کار نے مجھے بتایا تھاکہ بھارت تو ہر میٹنگ میں چاہے دو طرفہ ہو یا کثیر الجہتی یا کسی بھی موٖضوع ‘ماحولیات یا اقتصادیات پر ہو، مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان اور ہشت گردی کاذکر کروانے پر بضد ہوتا ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ اب بتدریج مندوبین بھارتی ہم منصبوں کو بتاتے ہیں کہ جب دہشت گردی کایا پاکستان کا ذکر آگیا تو اسکے سبب و جڑ پر بھی بات ہو، تاکہ اسکا تدارک کیا جاسکے۔دہشت گرد ی کے سبب سے نپٹنے کا نام لیتے ہی بھارتی مندوب فوراً ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ ان کا مقصد دہشت گردی کے تدارک کے بجائے پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کر کے اقتصادی اور سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار کرنا ہوتا ہے اور لمحاتی فائدہ حاصل کرکے ،میڈیا کے ذریعے اپنے ملک میں واہ واہ لوٹنا تک ہی محدود ہوتا ہے۔ سفارت کار نے بتایا کہ جب ا نکو بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کے عدم استحکام سے تو خطہ کے بھی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے اور دنیا اس کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے تو وہ بغلیں جھانکنے لگ جاتے ہیں۔

2016 ئمیں جب بھارت میں گواٗ کے مقام پر برکس یعنی برازیل، روس، انڈیا، چین اورجنوبی افریقہ کے سربراہان مملکت کی میٹنگ ہو رہی تھی۔ اس کے سائڈ لائن میں کئی اور پروگرام بھی ترتیب دئے گئے تھے۔ برکس میڈیا فورم کا بھی ایک اجلاس طے تھا، جس میں ان پانچ ممالک کے مقتدر صحافی و ایڈیٹر حضرات شرکت کر رہے تھے۔ میں بھی اس فورم میں بھارتی ایڈیٹروں کے وفد میں شامل تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک چینی مندوب نے تجویزدی کہ برکس تنظیم کو ان پانچ ممالک میں ان کی قابلیت، صلاحیت و استعداد کومدنظر رکھتے ہوئے ریسرچ سینٹرز قائم کرنے چاہیں، جیسے برازیل میں ماحولیات اور کھیلوں سے متعلق، چین میں انفراسٹرکچر وغیرہ، روس میں سائنس اور جنوبی افریقہ میں کلچر وغیرہ کی مناسبت سے اعلیٰ ریسرچ سینٹرز قائم ہوں، جن کی تحقیق کا دیگر برکس ممالک فائدہ اٹھائیں۔

اس معقول تجویز کو سبھی نے پسند کیا۔ مگر اس چینی مندوب نے مزید کہا کہ پچھلے دو دنوں سے اس نے نوٹس کیا ہے کہ بھارتی وفد کے پاس دہشت گردی کے علاوہ اور کوئی ایشو نہیں ہے ، اسلئے دہشت گردی سے متعلق سینٹر بھارت میں قائم کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ بھارتی وفد نے اس پرخاصا احتجاج کیا اور پروگرام کے منتظم نے نشت برخاست کرنے اور لنچ کا اعلان کردیا۔ خیر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں سربراہان مملکت کی تقریروں کا دور ختم ہوگیا۔ یہ اجلاس دسمبر کے آواخر تک کرسمس کی چھٹیوں تک چلے گا۔ جنرل اسمبلی کی چھ کمیٹیوں میں مختلف امور پر بحث و مباحثہ ہونگے، اس میں تیسری اور چوتھی کمیٹیاں جو سماجی، کلچرل ، دیگر انسانی حقوق ، سیاسی و نوآبادکاری کے خاتمہ جیسے ایشوز پر توجہ مرکوز کرتی ہیں، خاصی اہم ہیں۔ اگلے چند ماہ میں یہاں پاکستانی اور بھارتی سفارت کاروں کے درمیان خاصی معرکہ آرائی ہوگی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ہر سال تقریباً 350کے قریب قرار دادیں پاس کرتی ہے۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).