کیا “ہم سب” میں ہر طرح کی تحریر شائع ہونی چاہیے؟


۔ ۔ ۔ یہ بڑی پراسرار سی بات ہے کہ لکھنا کیا ہے اور کیوں ہے؟ کیا یہ ایک شخصیت کا اظہار ہے، کوئی نظریاتی بات ہے، کوئی فن ہے یا یہ پیشہ ہے، اگر تو یہ ایک شخصیت کے اظہار کی عکاسی کرتا ہے تو جس طرح ہر مہذب انسان دوسرے کی شخصیت کو احترام دیتا ہے اسی طرح اس کے اظہار ذات سے شاز ہی اختلاف کیا جاتا ہے گویا لکھنے والوں کی یہ قِسم بے ضرر ہے جس میں تنقید بھی زیادہ تر اپنی ذات پر ہی کی جاتی ہے۔

۔ ۔ ۔ اب دوسری قسم کو دیکھتے ہیں کہ کیا یہ کوئی نظریاتی اظہار ہے۔ اس صنف کے مصنف چاہے وہ دائیں بازو سے ہوں یا بائیں بازو سے، تکنیکی طور پر ان میں فرق کم ہوتا ہے جیسی شدت بنیاد پرست قسم کے لکھاریوں میں نظر آتی ہے۔ آج کل ویسی ہی شدت اور تلخی لبرل کہلانے کے ”شوقین“ لکھاریوں، ان کی تحریروں اور رویوں میں بھی نظر آنی شروع ہو گئی ہے۔ یعنی جس نرمی، اور اغماض پر مبنی روئیے کی ان سے توقع کی جاتی ہے ان کے ہاں اسی جنس کا فقدان نظر آتا ہے۔ ہمارے ایک انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ لکھاری اکثر اپنی وال پر اختلاف کرنے والوں یا کسی دوسرے نظریہ کے حامل افراد کی ڈانٹ ڈپٹ کرتے ملتے ہیں یا ہر چند دن کے بعد ان کو ”ان فرینڈ“ کرنے کی دھمکیاں دیتے پائے جاتے ہیں حالانکہ موصوف بڑے شدت پسند قسم کے لبرل ہیں جیسے یوسفی نے کہیں لکھا ہے کہ پٹھان حضرات جب کسی انتہا کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو کافر سے تشبیہ دیتے ہیں جیسے ”ظالم بڑا کافر حسین ہے یا کسی مولانا کی تعریف کرنی ہو تو کہیں گے کہ بڑا کافر ملا ہے۔“

۔ ۔ ۔ کہیں لیکن بہت کم لکھاریوں میں تحریر فن کے درجے میں آتی ہے۔ یہ حضرات کسی ردِ عمل کی پرواہ کئیے بغیر اپنے وسیع تجربے اور مطالعے کو اپنی تحاریر کی بنیاد بناتے ہیں۔ ان کو ہم مصنفوں کی دنیا کے درویش قرار دے سکتے ہیں۔ ہمارے ”ہم سب“ کے مدیرِ اعلٰی اسی زمرے کے لکھاری ہیں جن کی تحریریں ایک مشعل یا لائٹ ہاؤس کی حیثیت رکھتی ہیں کہ کبھی تو آگے جانے کا راستہ بتاتی ہیں اور کبھی کسی لائٹ ہاؤس کی طرح نظر نہ آنے والے خدشات اور خطرات سے آگاہ کرتی ہیں۔

۔ ۔ ۔ اب اس فن کو خالصتاً ایک پیشہ سمجھنے والے حضرات کا کچھ ذکر کرتے ہیں، ان حضرات کی اکثریت اس مقدس کام کو ”پیسہ کمانے“ کی طرح سرانجام دیتے ہیں۔ جس طرح ایک اچھے مستری کی بہت قدر ہوتی ہے اور اس کی خدمات اور فن کو کوئی بھی حسب منشاء مناسب ادائیگی کے بعد حاصل کر سکتا ہے اسی طرح یہ حضرات ہر کلائنٹ کی ضرورت اور خواہش کے مطابق ہر روز ایک بالکل نیا اور متضاد موقف پرزور انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک روز خود پر سابقہ موقف رکھنے پر سرعام لعنت تک بھیجیں گے اور چند ہی روز بعد حسب خواہش توقعات پوری کر دیے جانے پر اسی پرتیقن طریقے سے ان ہی کی حمایت کرتے نظر آئیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف نے بھی بالآخر مجبوری کے عالم میں پہلی بار ”خود اپنے خرچہ و ہرجہ پر کچھ“ پیشہ ور ”لکھاریوں کی خدمات حاصل کر لی ہیں لہٰذا اب“ ہم سب ”جیسے گوشوں میں بھی تحریک انصاف کی بھرپور ترجمانی ہوا کرے گی لیکن ایک قاری کی حیثیت سے خدشہ ہے کہ دوسری سیاسی جماعتیں بھی اسی طرح اپنے اپنے پیشہ ور صحافیوں کی خدمات اس فورم کے لئے اسی طرح بالمعاوضہ حا صل کر لیں گی اور سیاسی جماعتوں کی تعداد کو نظر میں رکھا جائے تو یہ دانشورانہ فورم بھی بہت جلد ہمارے“ آزاد کشمیر ”کی طرح کا منظر پیش کرنے لگے گا۔ جیسے یہ علاقہ یہاں غیر ریاستی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قیام کی وجہ سے سیاسی مچھلی بازار بن چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).