کشمیر میں مودی اور اسلام آباد میں ڈینگی


وزیراعظم عمران خان امریکہ کے ”کامیاب“ دورے کے بعد وطن واپس تشریف لا چکے ہیں۔ ائرپورٹ سے جلسہ گاہ تک آتے آتے وہ خاصے تھکے تھکے دکھائی دیے۔ ان کی چال سے لگ رہا تھا جیسے وہ اس بار ”ورلڈکپ“ ہار کر آئے ہیں۔ انہوں نے چند منٹ تک اپنے دیوانوں کے ساتھ خطاب کیا اور یہ بتانا ضروری سمجھا کہ ان کے دورۂ امریکہ کی کامیابی کے پیچھے سب سے زیادہ اور نمایاں ہاتھ ان کی بیگم بشریٰ بی بی کا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر اپنی بیگم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کی دعاؤں کا بھی ذکر کیا، میرا خیال ہے یہ پہلے وزیراعظم ہیں، جنہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی کامیابی کے پیچھے ان کی بیگم کی ”دعا“ یا ہاتھ ہے۔

وزیراعظم کی واپسی کے استقبال کو شاندار بنانے کے لئے تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی نے بہت کوشش کی، سیف اللہ نیازی، وزیراعظم کے بُرے دنوں کے ساتھی ہیں، دھرنے کے دنوں میں ان کا نام میڈیا پر اس وقت نمایاں طور پر سامنے آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب دھرنا کے شرکاء کی ”روٹی شوٹی“ کا مسئلہ پیدا ہوا۔ کہا گیا تھا کہ ہم نے تو پانچ کروڑ روپے دھرنے کے شرکاء کی ”روٹی شوٹی“ کے بندوبست کے لئے دیے تھے۔ اب اگر ”روٹی شوٹی“ نہیں دی گئی تو اس میں سارا قصور سیف اللہ نیازی کا ہے۔

سو اس کے بعد سیف اللہ نیازی منظر سے ہٹ گئے یا ہٹا دیے گئے۔ ایک عرصے تک خاموشی کے بعد ایک روز عمران خان ان کے گھر پہنچ گئے۔ دونوں کے درمیان پھر سے تعلقات اچھے ہو گئے اور عمران خان نے انہیں تحریک انصاف کا چیف آرگنائزر بنا دیا، سیف اللہ نیازی نوجوان آدمی ہیں، ان کی سیاست پر ماسوائے دھرنا کے شرکاء کے لئے ”روٹی شوٹی“ کے پیسے کھانے کے کوئی الزام نہیں ہے، مگر بعدازاں عمران خان کا ان کے گھر جانا اور معذرت کے بعد انہیں واپس بڑا عہدہ دینا اس بات کا اعتراف تھا کہ سیف اللہ نیازی کا دامن پاک ہے اور روٹی شوٹی کے پیسوں کا الزام ان کے حاسدین نے لگایا تھا۔

وزیراعظم کے استقبال کے حوالے سے سیف اللہ نیازی نے جذباتی انداز میں اعلان کیا تھا۔ امید تھی کہ وزیراعظم کے استقبال کے لئے تین چار کروڑ لوگ باہر نکل آئیں گے اور بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی والے استقبال کا ریکارڈ پاش پاش ہو گا، مگر ایسا نہ ہو سکا، لوگوں کی تعداد اتنی ہی تھی جتنی کسی بھی ایئرپورٹ پر ہو سکتی ہے۔ البتہ وزیروں، مشیروں کی تعداد عوام کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ ۔ ۔ مگر مولانا طاہر اشرفی نے جب وزیراعظم کو ’جبہ‘ پہنایا تو خود ان کی دستار گر پڑی اور چمکتی ہوئی ٹنڈ سے نور کے جلوے بکھرنے لگے۔

شیخ رشید خاصے مرجھائے مرجھائے سے نظر آئے، البتہ طاہر اشرفی کے اچھل اچھل کر نعرے مارنے کو خاصا پسند کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محبان عمران خان کا اصرار ہے کہ وزیراعظم نے یا کسی بھی مسلمان سربراہ نے آج تک اقوام متحدہ میں اس طرح کی شاندار تقریر نہیں کی۔ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ بھٹو، بے نظیر بھٹو، یاسر عرفات، قذافی کو مسلمان نہیں سمجھتے، اور اقوام متحدہ کے ہال میں سب سے پہلے تلاوت قرآن کریم کی آواز سنانے والے جنرل ضیاء الحق کو بھی مسلمان نہیں سمجھتے۔ اب مَیں یہاں فیڈل کاسترو یا ونزویلا کے صدر کی تقریر کا حوالہ دوں تو کیسے دوں کہ یہ امریکہ دشمن اور انسان دوست رہنما تو تھے ہی غیر مسلم۔

وزیراعظم یہاں سے امریکہ جاتے ہوئے سفیر کشمیر بن کر اڑے، پھر سعودی عرب جا نکلے۔ سعودی عرب کے بڑے بادشاہ کے ساتھ انہوں نے کیا گفتگو کی اور جواباً بادشاہ نے کیا فرمایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہیں ہے۔ البتہ شاہ محمود قریشی بتاتے ہیں کہ سعودی عرب نے کشمیر پر پاکستان کی حمایت کی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب سے کشمیر کا مسئلہ بنا ہے، ہمارے وزیرخارجہ کا کردار شادیوں پر ”ویلیں“ لینے والے سے زیادہ ہرگز نظر نہیں آیا۔

یعنی یہ صبح شام، یہ پکارتے رہے کہ ”ویل ویل“ فلاں ملک کے وزیراعظم کی ”ویل“ اور فلاں ملک کے صدر کی ”ویل“ کہ انہوں نے کشمیر پر ہمارے موقف کی حمایت کی ہے، مگر حرام ہے کہ انہوں نے کسی بھی ملک کے صدر یا وزیراعظم کا کوئی دو سطری بیان دکھایا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اقوام متحدہ میں بھی کشمیر کے حوالے سے کسی ملک نے پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔ چین، ترکی اور ملائیشیا کے علاوہ کہ ان تینوں ممالک کے ساتھ پاکستان کے اچھے تعلقات نوازشریف کے زمانے کے ہیں، ترکی اور چین کے ساتھ اچھے تعلقات ان کی خارجہ پالیسی کا حصہ تھے اور اگر اب انہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے تو پھر یقینی بات ہے کہ یہ سابقہ حکومت کی کمائی ہے جو اس حکومت کے کام آئی ہے۔

ملائیشیا کے مہاتیر محمد کے ساتھ عمران خان کے پرانے تعلقات ہیں، وہ اپنی تقریروں میں ملائیشیا کے صدر کا بہت حوالہ دیتے تھے اور انہیں پاکستان بھی بلایا تھا، مگر دیکھا جائے تو ملائیشیا کے صدر نے بھی ایک روایتی بیان کے ذریعے کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی ہے اور کوئی زور دار قسم کا بیانیہ سامنے نہیں آیا۔ البتہ ترکی، ملائیشیا اور پاکستان اب مل کر ”اسلام فوبیا“ کے حوالے سے ایک ”چینل“ بنانے پر متفق ضرور ہوئے ہیں اور عمران خان کی تجویز پر یہ چینل اسلام اور اس کی تعلیمات کے حوالے سے اقوام عالم کو آگاہ کریں گے۔

وزیراعظم کی یہ تجویز خاصی دلچسپ ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مستقبل میں کیا کرنے جا رہے ہیں، مگر وہ شاید یہ بھول گئے ہیں، اسلام اور اس کی تعلیمات کے حوالے سے پہلے سے بہت سے چینل کام کر رہے ہیں۔ نائیک صاحب پوری دنیا میں اسلام کے حوالے سے ایک موثر اور مثبت پیغام دے رہے ہیں۔ سعودی عرب میں خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ کے روز کے مناظر دنیا بھر میں دیکھے جاتے ہیں جس سے دیگر اقوام کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اسلام ایک امن پسند اور مہذب مذہب ہے۔

ایران والے بھی مذہبی حوالے سے میڈیا کے ذریعے اپنے خیالات دنیا کے سامنے پہنچاتے رہتے ہیں۔ خود ہمارے ملک میں ”مدنی چینل“ اور اے آر وائی دن رات اسلام کے پیغام کو عام کرنے میں لگے ہوئے ہیں، سوال یہ ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے کسی مزید ”چینل“ کی کیا ضرورت ہے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ اصل بات یہ ہے کہ وزیراعظم اپنے وعدوں سے منحرف ہو رہے ہیں اور اب اسلام کے نام پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ کشمیر کے معاملے میں وہ ناکام ہوئے ہیں۔ ملکی معاشی حالات کو سدھارنے میں بھی مکمل ناکام نظر آتے ہیں۔ ان کی حکومتی کارکردگی کا تو یہ عالم ہے کہ وزیراعظم کی ناک کے نیچے پنڈی اور اسلام آباد میں ”ڈینگی“ نے ات مچا رکھی ہے اور وہ ان کے قابو میں نہیں آ رہا۔ سوال یہ ہے کہ جن سے ڈینگی قابو نہیں آ رہا، وہ کشمیر کے معاملے میں ”مودی“ کو کیسے قابو کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).