قندیل بلوچ اور بے غیرتی


وہ 1990 میں ڈیرہ غازی خان کے علاقے شاہ صدر میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئی۔ اپنے چھ بھائیوں اور دو بہنوں کے ساتھ عسرت زدہ بچپن گزار کر جوانی کی دہلیز تک آ پہنچی۔ محض سترہ سال کی عمر میں 2008 میں ایک مقامی شخص عاشق حسین سے بیاہی گئی۔ سال بھر بعد اس کے آنگن میں ایک بیٹے کی صورت میں پہلی خوشی اتری۔ مگر نہ جانے کیوں وہ اپنے گھر میں خوش نہ تھی۔ شاید شوہر اسے وہ سب کچھ نہ دے پایا، جس کے خواب اس کی آنکھوں میں تھے؟

یا گھریلو تشدد یا عسرت بھری زندگی۔ وہ اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ گھر چھوڑ کر ملتان کے دارالامان جا پہنچی۔ وہاں سے واپس گھر جانے سے انکار کیا۔ اس کا شوہر اور دیگر رشتے دار اس کا بچہ لے کر واپس روانہ ہو گئے۔ اس سے اگلے ہی دن اس نے دارالامان چھوڑ دیا۔ وہ اپنی زندگی جینا چاہتی تھی۔ اس نے بس ہوسٹس کی نوکری اختیار کی، ایک ناکام محبت نے اسے وہاں بھی نہ ٹکنے دیا۔ 2013 میں اس نے پاکستان آئیڈل کے لئے آڈیشن دیا، اور اس کی آڈیشن کی ویڈیو انٹر نیٹ پر وائرل ہو گئی۔

یہاں سے فوزیہ عظیم نے قندیل بلوچ کے نام سے اپنا کا میابیوں کا سفر شروع کیا۔ اس نے اپنا یو ٹیوب چینل بنایا اور اس پر ’میں کیسی لگ رہی ہوں‘ نام سے پہلی ویڈیو سے اپنے نئے سفر کا آغاز کیا۔ جلد ہی اس کا شمار انٹر نیٹ پر پاکستان کی دس سب سے زیادہ تلاش کی جانے والی شخصیات میں کیا جانے لگا۔ اس کے انٹر نیٹ پر فالوورز کی تعداد پانچ لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی۔ بی بی سی جیسے عالمی معتبر نشریاتی ادارے کو بھی اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا پڑا۔ دراصل ایسی ویڈیوز ہی اس کی کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ تھیں۔ وہ ایک کامیاب یو ٹیوبر تھی۔ اس کی شہرت سرحدوں کو پار کرنے لگی تھی۔ ٹی وی چینلز، اخبارات اور انٹرنیٹ کون سی جگہ تھی جہاں وہ نہیں تھی۔ اس کو کامیاب ماڈل، اداکارہ، گلوکارہ اور سوشل ایکٹیوسٹ کے طور پر پہچان ملنے لگی تھی۔

مگر خرابی یہ تھی کہ اس کی ویڈیوز کی کامیابی کا زیادہ تر دارومدار ”شوقین“ حضرات پر تھا۔ ہمارے معاشرے میں جنہیں ٹھرکی بھی کہا جاتا ہے، جو اپنی بیٹی کو تو ہمیشہ برقعے میں چھپا کر رکھتے ہیں، لیکن دوسرے کی بیٹی کو گوشت کا ڈھیر سمجھتے ہیں۔ جو ہر جوان عورت کی طرف دیکھ کر رال بہاتے ہیں۔ اس کی مجبوری تھی کہ ایسے جانوروں کے منہہ سے رال بہتی رہے کیونکہ یہی بدکردار اس کی ویور شپ بڑھاتے تھے۔ اس کی ویڈیوز کو لے کر پورے ملک میں شور مچا ہوا تھا۔

اسے اخلاقی قدروں کا جنازہ نکالنے والی کہا گیا۔ بے غیرت کہا گیانوجوانوں کے اخلاق بگاڑنے والی کہا گیا۔ جتنا شور مچتا تھا اتنی ہی اس کی مقبولیت بڑھتی تھی۔ اس نے جون 2016 کو مفتی عبدالقوی کے ساتھ ایک بے باک انٹرویو کی ویڈیو بنائی۔ مفتی صاحب بھی اس کی فرمائشوں کے سامنے ڈھیر ہوتے گئے، اور یوں وہ اپنی اگلی دھماکے دار ویڈیو کا مواد حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اب پورے ملک کا میڈیا بھی اس مار دھاڑ میں کود پڑا تھا۔

کچھ کھوجی اس کے گھر تک بھی پہنچ گئے، جو اس کے شوہر کو پکڑ کر کیمرے کے سامنے لے آئے، تو کچھ نے اس کا شناختی کارڈ کھوج نکالا۔ اب اس کے لئے صورتحال بہت خراب ہو چکی تھی۔ 14 جولائی کو اس نے کسی نا معلوم مقام سے میڈیا سے بات کی اور اپنی جان کو لاحق خطرات کے بارے بتایا، اس سے پہلے اس نے قتل کیے جانے کی دھمکیاں ملنے پر پنجاب پولیس سے تحفظ مانگا تھا، اس کی درخواست کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اس نے عید الفطر کے بعد ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

اور عید کی چھٹیاں اپنے والدین کے ساتھ گزارنے کے لئے ملتان چلی آئی۔ لیکن اسے نہیں علم تھا کہ اتنی دیر میں اسی کے پیسوں پر پلنے والے اسے کے بھائیوں کی ”غیرت“ جاگ چکی تھی۔ 15 جولائی 2016 ء کی رات اسے نشہ آور مشروب پلا کر رات کو ہی اس کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ اس کے بھائیوں کے مطابق وہ ’بے غیرت‘ تھی، جس کی وجہ سے وہ سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہی رہے تھے۔ قندیل کے قتل کے الزام میں اس کے تین بھائیوں اور مفتی عبدالقوی پر مقدمہ چلا۔ بالآخر 27 ستمبر 2019 کو قندیل کے ایک بھائی وسیم کو عمر قید اور دوسرے دو کو اشتہاری قرار دیا گیا۔ مفتی عبدالقوی کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا گیا۔

قندیل جیسی معصوم اور بے ضرر لڑکی کا ایسا دردناک انجام بہت سارے سوالات چھوڑ گیا۔ اصل میں بے غیرت کون تھا؟ کیا وہ جس نے اپنی اور اپنے ماں باپ کی اچھی زندگی کے لئے جدو جہد کی؟ اس کے نکھٹو بھائی جو اس کے دیے ہوئے پیسوں پر پلتے رہے؟ دوسروں کی لڑکیوں اور عورتوں پر رالیں بہاتے ہوس پرست مرد؟ ریٹنگ کی دوڑ میں اندھا میڈیا؟ عالم دین کے لبادے میں چھپا نفس سے مغلوب مولوی؟ یا ہم سب، یہ منافق معاشرہ، جس سے ابھی تک غیرت کی الف ’ب‘ کا تعین بھی نہیں ہو سکا؟ جب تک ان سوالوں کے جواب نہی مل جاتے۔ ایسی قندیلیں روز بجھتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).